Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ٹی وی چینلز اور کلچرل بگاڑ....


نوجوان نسل اور ہماری خواتین مجھے ایک خبطی بوڑھا سمجھ کر میرے آج کے مضمون کو شاید نا پسند کریں۔ مَیں نہ تو کوئی مذہبی ناصح ہوں اور نہ ہی عمر رسیدہ ہونے کے با وجود دقیا نوسی خیالات کا داعی ہوں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کے آنے سے پہلے کے کلچر اور آج کے تبدیل شدہ کلچر کا چشم دید گواہ ہونے کے ناطے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ 1992 سے پہلے ہمارے معاشرے میں نہ ہی فضول قسم کی چمک دمک تھی، نہ ہی اردو انگریزی میں گڈ مڈ طریقہِ گفتگو تھا، نہ ہی بے مقصد قسم کے ٹی وی مارننگ شو ہوتے تھے، نہ فیشن شوز کے نام پر دِل لبھانے کا انتظام ہوتا تھا اور نہ ہی اتنے ڈھیر سارے چینل ہوتے تھے اور نہ ہی سیاسی ٹاک شوز میں ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنے کا تماشا ہوتا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن(PTV )1964 میں ہمارے گھروں میں بڑے مدھم اور مہذب طریقے سے داخل ہوا تھا۔ شام کے وقت 3-4 گھنٹے کے لئے ایسے آتا تھا جیسے کوئی دوست روز انہ بلا ناغہ آپ کے گھر میں کمپنی دینے کے لئے آئے۔ تھوڑی خبریں سُن لیں ، ایک دو خوبصورت سے ڈرامے دیکھ لئے اور کچھ موسیقی کی چاشنی ہو گئی اور کبھی کبھی کسانوں کے لئے، گھریلو خواتین کے لئے، طالبِ علموں کے لئے یا چھوٹے بچوں کے کام کی یا تفریح کی باتیں ہو جاتی تھیں ۔ 9 بجے پی ٹی وی شب بخیر کہہ کر اپنے گھر سدھارتا تھا اور ہم اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ جن کو پڑھنے کا شوق تھا وہ کتاب سے دل بہلاتے تھے، سکول اور کالج جانے والے لڑکے لڑکیاں اپنی نصابی سرگرمیوں میں جُت جاتے تھے ،کیونکہ اُس وقت Cell فون کا شتنگوڑہ ابھی نہیں آیا تھا۔ PTCL والوں کا ٹیلفون عموماً گھر کے بیچو بیچ " چوراھے" پر رکھا ہوتا تھا اس لئے لڑکے لڑکیاں اس فون کو صرف ضروری کاموں کے لئے ہی استعمال کرتے تھے۔ 1992 میں Satellite کے ذریعے ٹرانسمیشن شروع ہوئی تو حکومت کے ہی سرمائے سے ایک اور TV نیٹ ورک STN کے نام سے بن گیا۔ یہ چینل تفریحی بھی تھا ،لیکن خبریں اور اُن پر تبصرے حکومتی کنٹرول میں ہی تھے۔ STN میں چونکہ صرف حکومتی پروپیگنڈا نہیں ہوتا تھا اس لئے یہ چینل PTV پر زیادہ حاوی ہو گیا۔ یہ نہیں کہ PTV کا معیار گر گیا تھا۔ بس یہ کہ STN کو عوام ذرا آزاد سمجھتے تھے اس لئے یہ چینل شہروں میں زیادہ دیکھا جاتا تھا۔پی ٹی وی1988 تک رنگین بھی ہو گیا تھا اور سیٹیلائٹ کی وجہ سے تمام ملک میں دیکھا جاتا تھا۔ 
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے پرائیویٹ چینلز کھولنے کی اجازت دے دی۔ سب سے پہلا پرائیویٹ چینل Indus ٹی - وی بنا اُس کے بعد ARY اور پھر جیو ۔ اِن چینلز کے بعد 2006 تک بے تحاشہ پرائیویٹ چینلز کھل گئے ۔ اَب تک پاکستان میں 127 چینلز ہیں۔ اِن 127 چینلز میں 22 چینلز غیر ملکی ہیں جن میں خبروں کے چینل صر ف 4 ہیں یعنیDW,CNN,BBC اور SKY TV ۔ 4-5 مذہبی چینلز ہیں جو بغیر حکومتی لائسنس کے چل رہے ہیں۔ مذہبی لوگوں اور مولویوں کی دھاندلی دیکھیں کہ اُنہوں نے اپنے چینلز کھولنے کے لئے حکومتی اجازت لینی بھی گوارہ نہیں کی۔ پاکستان کے 98 پرائیویٹ چینلز میں سے صرف 8-9 چینلز ہیں جن میں ریٹنگ کا مقابلہ ہے، جن کو اشتہاری بزنس بھی زیادہ ملتی ہے اور یہ ہی وہ چینلز ہیں جو کیبل اپریٹرز کی ٹہل سیوا کر کے اپنا سیریل نمبر TV SET کے پہلے 20 چینلز میں لگوانے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً Geo شروع شروع میں ٹی وی سیٹ کے ابتدائی نمبر پر نمودار ہوتا تھا ،لیکن جب سے اس کے خلاف ہو ا چلی یا چلائی گئی اب اس چینل کو آپ کبھی 65 ویں نمبر پر دیکھتے ہیں اور کبھی 50 ویں نمبر پر۔ یہ کرتب علاقائی کیبل آپریٹر کا ہوتا ہے کہ وہ کس چینل کو TV سیٹ پر کون سے نمبر پر ڈالتا ہے۔

مقابلے کے چینل مثلاً دنیا، ARY ایکسپریس ، آج، ڈان، کیپٹیل اور" اب تک" ایسے چینل ہیں جنہوں نے سیاسی مناظرے کروا کر یا حکمرانوں کی سچی، جھوٹی چغلیاں کھا کر مقبولیت حاصل کی ہے۔سیاستدانوں کی کرپشن کی وحشت ناک معلومات سُنا اور دِکھاکر یا اپنے چینل پر مختلف سیاسی پاریٹوں کے جارحانہ رویوں والے مبصر بلوا کر چینلز اپنی ریٹنگ بڑھاتے ہیں ۔ ان چینلز کے اینکرپرسنز خواتین یا مرد حضرات ہوتے ہیں۔ اِن میں زیادہ تر وہ اینکرز ہیں جو یونیورسٹی سے ابلاغیات میں M.A. کی ڈگری لے کر ڈائریکٹ TV چینل پر آکر سیاسی مباحثوں کے پروگراموں کو چلانے لگتے ہیں۔ سیاستدانوں کے لئے بھی TV پر بے ساختہ اور بغیر کسی ٹھوس تیاری کے بولنے کا یہ پہلا تجربہ ہوتا ہے اور نوجوان اینکرز کو بھی پُر مغز اور گہرائی والے سوال کرنے کا تجربہ نہیں ہوتا اگرچہ اُن کے پاس معلومات ہوتی ہیں، اُن کا مطالعہ بھی ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ روز انہ اِن چینلوں پر شور شرابا ،بے لگام تقریر بازی اور الزام تراشی دیکھتے ہیں۔ دلیل کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے کی لات کھینچنا، ناظرین کے لئے تفریحی مشغلہ بن جاتا ہے۔ گھروں میں بیٹھے ناظرین ایسے دھینگا مشتی والے پروگراموں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ چینلز کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔ اینکرز کی مراعات کا پیکیج اور " فربہ" ہو جاتا ہے۔ تمام چینلز نے کچھ سنجیدہ اور تجربہ کار اینکرز اور سیاسی مبصرین کی بھی خدمات حاصل کی ہیں جو یا تو اخباری دنیا سے آئے ہیں یا جو اخباروں کے لئے لکھتے ہیں۔ ایسے اینکرز انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ عموماً وہ ہر چینل کے لئے میسر ہوتے ہیں خواہ مستقل طور پر وہ مخصوص چینل کے لئے ہی کام کر رہے ہوں ،لیکن وقتی تبصرے کے لئے اُن کے خیالات سے کو ئی بھی چینل مستفید ہو سکتا ہے۔

وہ زمانہ بھی تھا جب ہمارے PTV پر ایسے اچھے کامیڈی یا ہککے پھُلکے
 تفریحی پروگرام آتے تھے کہ ناظرین گھر کے کام عارضی طور پر چھوڑ کر PTV کے طنز و مزاح سے بھر پور پروگرام دیکھتے تھے۔ مثلاً سچ گپ، ففٹی ففٹی ، نیلام گھر، کسوٹی ، ضیاء محی الدین شو یا دلدار بھٹی کا ٹاکرا۔ اَب یہ حال ہے کہ چینلوں کی بھر مار نے تخلیق کی جگہ تقلید نے لے لی ہے۔ ہر چینل کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک مارنگ شو ضرور کرے، ایک عورتوں کا فیملی شو لازماً ہو، ایک دو فیشن شو ناظرین کو کیٹ واک کے دکھائے جائیں ، پھکڑ بازی کو چھوتے ہوئے دو چار کامیڈی پروگرام ہوں اور اُن پروگراموں میں یاتو لوگوں کی پگڑی اُچھالی جائے یا سیاست دانوں اور معاشرے کے معزز افراد کے سوانگ بھرکرچلتے پھرتے کیری کیچر بنائے جائیں، بھانڈوں کی طرح جگُت بازی کی جائے اور پھر اس سب کو کامیڈی شو کہہ دیا جائے۔ مہذب معاشروں کی حسِ مزاح بڑی معیاری ہوتی ہے۔ 

مغرب کے TV چینلز پر بھی کامیڈی ہوتی ہے، وہاں بھی سوانگ بھرا جاتا ہے، وہاں بھی اپنے بڑوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ،لیکن یہ سب کچھ اُن کی تہذیب کے مطابق ہوتا ہے اور معاشرے کی پختگی(Maturity) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ نازیبا روّئیے یا بات چیت کا فوراً اثر لیتا ہے۔ ہماری بچیاں جب ایک دوسرے کو " یار" کہہ کر بلاتی ہیں تو وہ اپنے مرد دوستوں کو بھی بے ساختگی اور انجانے میں یا رکہہ دیتی ہیں۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں ایسی " آزاد" گفتگو کو ابھی تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس وقت ہمارے پرائیویٹ چینلز پر جتنے بھی پروگرام دکھائے جا رہے ہیں اُن میں سے اکثر مغربی TV سے مستعار لئے گئے ہیں۔ 

مَیں چونکہ انگلینڈ ، امریکہ ، کنیڈا ، بھارتی اور عربی TV پروگرام 30 سال سے بیرون ملک پوسٹنگ کی وجہ سے دیکھتا رہا ہوں اس لئے مجھے پاکستانی پرائیویٹ چینلز میں کوئی جدّت طرازی نظر نہیں آئی۔ ہمارے ابتدائی PTV پروگراموں میں بڑی جدّت ہوتی تھی۔ اُس کے مزاح میں بھی رکھ رکھاؤ تھا اور اس کے باوجود اُس کا ہر پروگرام نیا نیالگتا تھا۔ نیلام گھر Original پروگرام تھا سالہا سال چلا۔ برصغیر میں جہاں جہاں اُردوسمجھی جاتی تھی وہاں کے عوام ہمارے ڈرامے شوق سے دیکھتے تھے ۔

پرائیویٹ چینلز خواہ خبروں کے لئے مخصوص ہوں یا تفریحی ہوں ، ان سب کا اوّلین مقصد روپیہ کمانا ہوتا ہے۔ ان چینلز کے وہ ملازمین جو عموماً سکرین پر نظر آتے ہیں یعنی خبریں پڑھنے والے، اینکز یا ھلکے پُھلکے پروگرامز کے پیش کار ہوں، اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خبروں کو دلچسپ بنائیں خواہ وہ ایک ہی خبرکو بار بار چلا کر اُس کا بھرکس ہی نکال دیں۔ " بریکنگ نیوز" کی اصل غائیت کیا ہے، کون سی خبر اتنی اہم ہے کہ وہ بریکنگ نیوز کے زمُرے میں آئے، اِن خبروں کے پڑھنے والوں کو اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ جہاں تک اینکر پرسنز کا تعلق ہے وہ جب اپنے مخاطب سے سوال کرتے ہیں تو وہ سوال نہ ہی فکر انگیز ہوتا ہے اور نہ ہی اتنا گہرا کہ وہ مخاطب کی اندرونی کیفیت کو باہر نکال لا سکے۔ 

اِن چینلز کے اینکرز خود زیادہ بولتے ہیں اور مخاطب کی گفتگو میں بار بار مُخل ہو کر نہ ہی ناظرین کی معلومات میں اضافہ ہونے دیتے ہیں ،بلکہ مبصّریا تجز یہ کار بھی سیر حاصل جواب نہیں دے سکتا۔ پرائیویٹ چینلز کی زندگی کا انحصار اشتہاروں پر ہوتا ہے۔ کسی بھی چینل کی مقبولیت اشتہاروں کی بہتات یا کمی پر موقوف ہوتی ہے۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں تہذیبی انحطاط آیا ہے اُس کی لاشعوری وجہ TV کے بے ہودہ اشتہار بھی ہیں، بلکہ آپ TV کے اشتہار دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتے کہ پاکستان کون سے صنعتی شعبوں میں ترقی کر رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ٹی وی اشتہار دیکھ کر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ملک ایک Consumer معاشرہ ہے۔ سوائے پنکھوں، ائیرکنڈیشنرز چائے ،صابن، بسکٹ اور پینٹ کی انڈسٹری کے ہمارے ملک میں کوئی صنعت ہی نہیں ہے۔

زیادہ تر تشہیر موبائل فون کمپنیوں کی ہوتی ہے یا نئے ڈیزائینوں کے Cell Phones سکرین پر بار بار نظر آتے ہیں۔ پراپرٹی ڈویلپرز کے اشتہاروں کی کثرت سے تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان کا تمام کالا دھن پلاٹوں کی فائلیں خرید نے پر لگ رہا ہے۔ TV چینلز کے اشتہاری شعبوں کے سربراہ اتنے کُند ذہن ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کس اشتہار کو کس پروگرام کے بعد یا پہلے دینا ہے۔ ڈاکٹر علامہ غامدی کا پروگرام ہورہا ہو گا سادگی کے بارے میں اور فوراً ہی اشتہاری وقفہ میں اُچھلتی کودتی فیشن سے لبریز خواتین گل احمد ، کھادی ، چن ون یا دوسری کمپنیوں کے دلکش ٹیکسٹائل کے اشتہاروں میں نظر آ رہی ہوں گی۔ موبائل ٹیلیفونوں کے جاذب نظر اشتہارات نے Street crime کو جنم دیا ہے۔ فون چھیننے کی وارداتیں عام لڑکے کرتے ہیں جو اتنے قیمتی فون جائز ذرائع سے خرید نہیں سکتے ۔ بعض چینلز پیشہ ور استخارہ کرنے والوں کے اشتہار چلاتے ہیں۔ ایسے چینل بڑے نادار اور مفلسی کے مارے ہوتے ہیں،کیونکہ بڑے چینل ایسے بے ہودہ اشتہار نہیں دکھاتے۔ فیشن شوز کی کیٹ واکس نے ہماری گھر یلو لڑکیوں میں ہوس اور لالچ بھر دیا ہے۔

 وہ گمراہی کے گڑھے میں گر سکتی ہیں اُن فیشن ایبل لباسوں کو حاصل کرنے کے لئے۔ البتہ پرائیویٹ چینلز سے نادانستہ ایک اچھا کام یہ ہوا کہ لوگوں کے دِلوں کی ترجمانی کرنے کے لئے لندن کی طرح ایک قسم کا الیکٹرونک Speakers corner ملِ گیا۔ پرائیویٹ چینلوں سے یہ اچھا کام سرزد تو ہوگیا ،مگر اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہمارا ہر سیاستدان اور بڑا سرکاری اَفسر ہماری نظروں میں کرپشن اور بد عنوانی کا " پیکر " نظر آنے لگا۔ پرائیویٹ چینلز نے سیاست اور جمہوریت کی وہ مٹی پلید کی ہے کہ عوام کی اکثریت سیاستدانوں سے نفرت کرتی ہے اور پاکستانی جمہوریت کو محض ایک فراڈ سمجھتی ہے۔ ایسے میں اگر مارشل لاء لگ جائے تو عوام کی طرف سے تو مخالفت بالکل نہ ہو گی، مگر اس مارشل لاء کے لئے راستہ ہموار کرنے میں ہمارے پرائیویٹ چینلز کا نادانستہ ہاتھ ضرور ہوگا۔

منظور احمد

Post a Comment

0 Comments