Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انوکھا انصاف...

ساٹھ تنظیمیں ہیں جنھیں حکومت پاکستان نے کالعدم قرار دیا ہے ۔ یہی فہرست میاں نوازشریف کی حکومت نے اس داخلی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں دی ہے جسے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے ۔ انصاف اور قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان سب کالعدم تنظیموں اور ان کے سربراہوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے لیکن ہماری سیاسی قیادت نے جو ایکشن پلان بنا یا ہے ، اس کی رو سے مذکورہ فہرست میں درج صرف ان تنظیموں کے وابستگان کے کیس فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیںگے جن کی تنظیم کے ساتھ اسلام یا کسی مسلک کا لفظ درج ہے لیکن پیپلز امن کمیٹی‘ بلوچستان لبریشن آرمی یا بلوچستان یونائیٹڈ آرمی کے وابستگان کے کیسز کو فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جائے گا کیونکہ اکیسویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ ان عدالتوں میں صرف ان دہشت گردوں کے کیسز کی سماعت ہوگی جو مذہب اور مسلک کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں ۔

 عذیر بلوچ جیسے لوگ خواہ سو انسانوں کے قتل کے ملزم کیوں نہ ہوں لیکن انہیںملٹری کورٹس میں پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے مذہب یا مسلک کے نام پر بندوق نہیں اٹھائی لیکن لشکرطیبہ یا اہلسنت والجماعت کے ایک قتل یا اقدام قتل کے ملزم فوجی عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے مذہب کے نام پر جرم کیا ہے۔ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی یا جے یو پی کے کسی کارکن کا کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد کسی خلاف قانون حرکت میں ملوث پایا گیا تو حکومت اس کے کیس کو فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی کیونکہ وہ مذہب کے نام پر جرم کرتا ہے لیکن اے این پی، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے کارکن کو اسی طرح کے جرم کے بعد بھی ان عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکے گا کیونکہ وہ مذہب کا نام استعمال نہیں کرتا ۔

کراچی میں کوئی ہزار بندوں سے بھتہ لے لے‘ کوئی درجن بھر لاشوں کو بوری میں بند کردے یا پھر بلوچستان میں کوئی فوج سے لڑے یا آبادکاروں کو گولیوں سے چھلنی کردے لیکن وہ ملزم فوجی عدالتوں میں پیش نہیں کئے جائیں گے ۔ گویا اس ملک میں اب مذہبی اور فقہی عصبیت سنگین جرم لیکن لسانی اور علاقائی عصبیت اب کم تر جرم ہے ۔ حالانکہ جرم ‘ جرم ہے ۔ وہ مذہب کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے‘ لسانی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے اور ذاتیات کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے۔ قتل ‘ قتل ہے اور ڈاکہ ڈاکہ ہے‘ چاہے جس نام سے بھی ہو۔

ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا جرم ہے ‘ چاہے جس بھی نام سے ہو۔ اسی طرح خلاف قانون اور کالعدم قرار پانے والی تنظیموں میں تفریق کا دنیا کے کسی اور ملک میں تصور نہیں لیکن یہاں ایک طرح کی کالعدم تنظیموں کے سربراہ کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے لیکن دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے سربراہ کا نام آتے ہی لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ ہم نے تو مذہبی کالعدم تنظیموں میں بھی تفریق کر رکھی ہے ۔ ایک قسم کی کالعدم تنظیم کے وابستگان قابل گردن زدنی قرار پائے ہیں تو دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے لوگ ریاست کے چہیتے ہیں ۔ سید منور حسن حکیم اللہ محسود کو شہید کہیں تو قیامت برپا ہوتی ہے لیکن ریٹائرڈ جنرلز بالاجماع مولانا فضل اللہ‘ بیت اللہ محسود ‘ مولوی فقیر محمد اور منگل باغ کو مجاہد قرار دیتے رہیں تو پھر بھی محترم قرار پاتے ہیں ۔ سزا ملنی چاہئے لیکن ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر مجرم کو یکساں ملنی چاہئے ۔ فوجی عدالتیں اگر ضروری ہیں تو پھر خوف اور دہشت پھیلانے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر طرح کے ملزم کو اس کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے ۔

میڈیا پر اگر کالعدم تنظیموں اور ان کے وابستگان کو کوریج دینے پر پابندی ضروری ہے تو پھر سب پر یکساںلگادی جائے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ریاست تو ان کو آزاد چھوڑ دے اور میڈیا سے کہہ دیا جائے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کرے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پوری ملکی سیاسی قیادت نے ایک ایسے ایکشن پلان پر صاد کردیا کہ جو تضادات اور ابہامات کا مجموعہ ہے ۔

اس پلان میں جنگ کا اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کیاگیا ہے کہ جنگ کس کے خلاف ہوگی ۔ دہشت گرد کی واضح تعریف سامنے لائی گئی ہے اور نہ انتہاپسند کی ۔ مدارس کے نظام میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے لیکن یہ وضاحت موجود نہیں کہ کس طرح کی اصلاحات کی جائیں گی۔

میڈیا کو انتہاپسندوں اور اس کے ہمدردوں کے موقف کی تشہیر سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ رہنمائی کوئی نہیں کر رہا کہ انتہاپسند کون ہیں اور ان کے ہمدرد کون ہیں؟۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں کہ جو مذہب کو تزویراتی اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کے قبیح عمل کے نتائج کو بری طرح بھگت چکے ہیں۔ میری تعلیم، ہوئی میرے رشتہ دار متاثر ہوئے، مجھے بھائیوں جیسے عزیز دوستوں کے جنازوں کو کاندھا دینا پڑا اور اپنی ثقافت اور روایات کے جنازے نکلتے دیکھے۔ افغان پالیسی پر تنقید کی وجہ سے مجھے باہر کے ایجنٹ کے طعنے بھی سننے پڑے۔

میدان صحافت میں اترتے ہی ان کا ناقد ہونے کی وجہ سے مجھے 1999ء میں افغان طالبان کی قید بھی کاٹنی پڑی اور میں ہی تھا کہ جو بتاتا اور سمجھاتا رہا کہ القاعدہ‘ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا نظریاتی منبع ایک ہی ہے ۔ مدارس کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی بھی میں 2002ء سے اپنی تحریروں میں کر رہا ہوں لیکن اگر امتیازی قوانین کے ذریعے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی گئی تو خیر کی بجائے شر برآمد ہوگا۔ اس ملک میں رہنے والا ہر فرد برابر کا شہری ہے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئیے ۔

ہمارے ملک میں فساد کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں سب شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک طبقے کے لوگوں کے لئے جو چیز جرم قرار پاتی ہے، دوسرے طبقے کے لوگوں کے لئے وہ فیشن ہے۔ خوف اور دہشت جو بھی، جس نام پر بھی پھیلائے، سنگین سزا کا مستحق ہے۔ انسان کا قتل جو بھی، جس نام پر بھی کرے، قاتل ہے ۔ ریاست کے خلاف بندوق جو بھی، جس نام پر بھی اٹھائے، باغی ہے ۔ کالعدم جو بھی ہو، خلاف قانون ہے۔ اگر قانون اندھا بن کر ان سب کو ایک نظر سے دیکھے تو رحمت کا ذریعہ بنے گا لیکن اگر وہ مجرموں میں تفریق کرے، تو انتشار کا موجب ہوگا۔ موجودہ حکمران اور پالیسی ساز کسی کی سنتے ہیں اور نہ سنیں گے لیکن متنبہ کرنا اپنا فرض تھا، باقی ان کی مرضی۔

سلیم صافی

"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Post a Comment

0 Comments