Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سوشل میڈیا کیا ہے…؟...

آج کے دور میں سوشل میڈیا کی بڑی اہمیت ہے۔ سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل ایس ایم ایس اور دیگر ہیں، روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر کاروباری افراد معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک، ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس، ڈگ اور دیگر سے جڑے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے معلومات کا ذخیرہ آپ تک خودبخود بذریعہ ای میل اور انٹرنیٹ بلاگ پوسٹس پہنچ جاتا ہے، ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول کرنے کے لیے کسی بھی سوشل سائٹ میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے، پھر یہ خودبخود ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جائے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسان کو اتنا ترقی یافتہ بنادیا ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع کیے بغیر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے سوشل میڈیا کے ذریعے میل جول رکھ سکتا ہے۔

فیس بک پر موجود لوگوں کو اگر ایک ملک کی آبادی کے مطابق جانچا جائے تو یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور سوشل میڈیا ویب پر حاوی ہے۔ جبکہ جسٹن بیبر، کیٹی پیری اور لیڈی گاگا کے ٹوئٹر فالوورز جرمنی، ترکی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، مصر اور کینیڈا کی آبادی سے زیادہ ہیں۔سوشل میڈیا تجارتی، پیشہ وارانہ، ذاتی اور تنظیمی برانڈ سازی کے لیے زبردست امکانات رکھتا ہے۔

آپ سوشل میڈیا پر جو کام کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے مناسب چیز کا انتخاب کریں۔ مثلاً اگر آپ جنرل نالج کے مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو وکی پیڈیا(Wikipedia) وغیرہ پر لکھیں۔ اگر آپ حالاتِ حاضرہ یا کسی بھی موضوع پر بحث مباحثہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے فورم (Forum) بہترین چیز ہے۔ اگر آپ اپنے خیالات، رائے اور تجزیے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بلاگ(Blog) سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں۔ اگر انٹرنیٹ پر اپنا حلقۂ احباب بڑھانا اور اپنی مصروفیات اور سرگرمیوں سے اپنے حلقۂ احباب کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے فیس بک (Facebook) وغیرہ بہترین ہیں۔لوگوں کو سوشل میڈیا کی درست آگاہی نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک طرف وہ فیس بک سے بلاگنگ کا کام لینے کی کوشش میں ہیں تو دوسری طرف بلاگ کو ٹوئٹر بنا رکھا ہے۔ اہم موضوعات فیس بک پر زیرِ بحث ہیں تو دوسری طرف اردو وکی پیڈیا ویران ہے، لوگ فورم کو چاٹ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے لیے بلاگ سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ بلاگ کی ایک تحریر، فیس بک کی سو شیئرنگ سے بہتر ہے۔

ہمارییہاںانٹرنیٹ فیس بک سے شروع ہوکر فیس بک پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اچھا بھلا لکھنے والے لوگ بھی فیس بک کو ہی اوڑھنا بچھونا بناکر بیٹھے ہیں۔ تخلیق کار سے لے کر فنکار تک، شعراء سے لے کر عام انسان تک سب کے سب اپنے قیمتی وقت کا سرمایا فیس بک پر لٹا رہے ہیں۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ یہ فیس بکی شہرت یا حوصلہ افزائی نہایت ہی عارضی ہے۔آپ فیس بک یا ٹوئٹر وغیرہ پر چاہے جتنی قیمتی چیز شیئر کریں، ایک دو دن تو اس کا بہت چرچا ہوگا مگر پھر وہ ایسے غائب ہوگی ۔بلاگ اور فورم وغیرہ پر لکھا محفوظ رہتا ہے۔ آپ لکھنا چھوڑ بھی دیں تو آپ کی پرانی تحریروں سے لوگ فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ مواد تلاش میں آسان ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ کر سرچ انجن بلاگ کو صرف منہ ہی نہیں لگاتے بلکہ بلاگ سرچ انجن کا چہیتا ہے۔لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ فیس بک جس کام کے لیے بنی ہے اس سے وہی کام لیں بلکہ اچھی طرح لیں، مگر سستی اور عارضی شہرت و حوصلہ افزائی کے پیچھے نہ بھاگیں اور اصل بات کو سمجھیں۔ اپنی قیمتی تحریروں کو مناسب جگہ پر رکھیں تاکہ لوگ آسانی سے اور دیر تک ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔

سوشل میڈیا پر ہر قسم کی بات کی جاسکتی ہے اور لوگ اپنی پسند کے مطابق ہر نسل اور رنگ کے لوگوں سے رابطہ کرسکتے ہیں، جن سے وقت کے ساتھ ساتھ ایک تعلق اور دوستی کا رشتہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر باتیں کرنے والوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ جو بھی بات کررہے ہیں اُس کے لیے انہیں جواب دہ ٹھیرایا جا سکتا ہے، اور اگر کسی کو اس بارے میں شکوک و شبہات ہیں تو اسے للت مودی بنام کرس کینز کیس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں للت مودی کو 90 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ جرمانہ ادا کرنا پڑگیا تھا۔ کسی بھی سوشل میڈیا میں اکائونٹ بناکر فوری طور پر استعمال کرنے سے پہلے اس کی سیٹنگ میں جاکر تمام آپشن چیک کریں، مطلوبہ پرائیویسی نافذ کریں اور پھر استعمال کرنا شروع کریں۔ پرائیویسی کا اگر ایک کھلا مطلب فیس بک کی زبان میں لیا جائے تو وہ یہ ہے کہ آپ کیسے اپنی فیس بک کی پروفائل کو استعمال کرنا چاہیں گے۔ آپ اسے ’فرینڈز اونلی‘ یعنی صرف دوستوں کی حد تک رکھ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں آپ ’فرینڈز آف فرینڈز‘ یعنی دوستوں کے دوستوں کو اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ بھی آپ کی پروفائل تک رسائی حاصل کرسکیں۔ آخری صورت ہے پبلک، جس کی صورت میں آپ کی پروفائل فیس بک اور اس کے غیر صارفین سب کی رسائی میں ہوگی۔ فیس بک اس وقت آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ اپنی ایک پوسٹ یا تصویر یا ویڈیو کی پرائیویسی علیحدہ سے کرسکیں، اس صورت میں اگر آپ کی پروفائل کی پرائیویسی ’فرینڈز اونلی‘ ہے تو آپ ایک ویڈیو یا تصویر کو پبلک کرکے سب سے شیئر کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نہیں چاہتے کہ ہر شخص آپ کی تصاویر اور فیس بک پروفائل پر نظر ڈالے تو بہتر ہوگا کہ آپ اپنی پروفائل کی پرائیویسی کی سیٹنگ کو ’فرینڈز اونلی‘ پر رکھیں۔
ٹوئٹر ایک مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ہے جس کی تعریف سے ظاہر ہے کہ یہ مختصر طور پر اظہارِ رائے کی جگہ ہے۔ اس ویب سائٹ پر آپ اپنی رائے کا اظہار ایک سو چالیس حروف میں کرتے ہیں۔ یہ دنیا میں ہونے والے حالات و واقعات پر نظر رکھنے کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض لوگ ٹوئپس اور ٹوئپلز کے ناموں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ٹوئٹر پر آپ کو مختلف لوگ جو آپ کی باتوں، کام یا دلچسپیوں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں یا پسند کرتے ہیں، فالو کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ جو بات بھی ٹوئٹر پر لکھیں گے وہ اُن تک پہنچے گی۔ اگر آپ کسی فالوور کو ناپسند کرتے ہیں یا وہ آپ کو ٹرول کررہا ہے تو آپ اسے بلاک کرسکتے ہیں۔اگر آپ کسی صحافی، گلوکار، سیاستدان، ادارے، بینک، چینل، اخبار یا کسی بھی شخصیت کو پسند کرتے ہیں اور ان کی باتوں یا کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ٹوئٹر آپ کو یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ ان کو فالو کرکے ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ باقی تمام ذرائع کی نسبت ٹوئٹر پر جلدی جواب دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی کہی ہوئی بات زیادہ افراد تک جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے سو فالوورز ہیں اور ایک ہزار فالوورز رکھنے والی کوئی شخصیت آپ کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتی ہے تو آپ کی لکھی ہوئی بات گیارہ سو ٹوئٹرز تک پہنچ جاتی ہے۔آپ کسی بھی شخصیت یا ٹوئٹر کا اکاؤنٹ رکھنے والے شخص کو ٹیگ کرسکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آپ اُس تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں جو اُس کے کنیکٹ یا انٹریکشن کے صفحے پر ظاہر ہوگی۔ اس ذریعے سے بہت سارے افراد مختلف سیاستدانوں اور صاحب الرائے افراد تک اپنی بات پہنچاتے ہیں اور اکثر اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔اس بحث میں شامل لفظ کا استعمال اہم ہے۔ٹوئٹر پر ٹرینڈ ایک ملک کی سطح یا پوری دنیا میں کیا جاسکتا ہے ۔

سہیل بلخی

What is Social Media?

Post a Comment

0 Comments