Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بلاول زرداری کی بطور بھٹو ثانی رسمِ تاجِ پوشی......


سلطنتِ ذوالفقاریہ کے ولیِ عہد بلاول زرداری کی بطور بھٹو ثانی رسمِ تاجِ پوشی پر اس وقت تک کچھ نہ کچھ کہا جاتا رہےگا جب تک وہ دوسرا خطاب نہیں کر لیتے۔

بہت سوں کو رعایا سے ان کا پہلا باضابطہ خطاب بکھرا بکھرا سا لگ رہا تھا۔
کئیوں کا خیال ہے کہ فی الحال وہ ایسے نوآموز ڈاکٹر ہیں جسے اصل مرض کی تشخیص کے لیے وقت اور ضروری تجربہ درکار ہے لہذا ڈاکٹر بلاول نے اپنے نسخے میں ریاست و سماج کو لاحق بیماری کے لیے تمام لیب ٹیسٹ، اینٹی بائیوٹکس اور سیرپ ایک ساتھ لکھ دیے کہ مریض پر کوئی دوا تو اثر کرے گی۔
کچھ کا خیال ہے کہ ان کی تقریر لکھنے والوں نے انھیں بچہ جان کر سیاسی بجلی سے چلنے والی ڈاجم کار میں بٹھا دیا جو دیگر بچوں کے بمپروں سے ٹکرا رہی ہے اور سب کے سب بڑے ایکسائٹمنٹ میں چیخ رہے ہیں۔

کچھ پنڈتوں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو ثانی کو رسمِ تاج پوشی کے خطاب میں صرف بھٹو ازم آگے بڑھانے کا فوٹوسٹیٹ نعرہ نہیں لگانا چاہیے تھا بلکہ جس طرح ان کے نانا بھٹو اول نے بیسویں صدی کے عام پاکستانی نوجوانوں کی نبض محسوس کرتے ہوئے اپنے وقت کے حساب سے ایک نظریاتی راستہ متعارف کروایا اسی طرح بلاول بھٹو ثانی کو بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں اور امنگوں کی بنیاد پر پرانے نظریے کو ایک نئی شکل و تشریح دینی چاہیے تھی۔

مگر ایسے عجلت پسند پنڈت بھول جاتے ہیں کہ بلاول کے نانا نے یونیورسٹی آف برکلے کیلی فورنیا سے سنہ 1948 فارغ التحصیل ہونے کے بعد 20 برس قانون اور سفارت کاری کے گر سیکھنے اور پاکستانی سٹیبلشمنٹ کی اپرنٹس شپ میں گذارے تب جا کے وہ اپنا راستہ الگ سے نکالنے کے قابل ہوئے۔
جبکہ بلاول بھٹو ثانی کی والدہ بھی آکسفورڈ سے گریجویشن کے فوراً بعد سیاست میں نہیں اتاری گئیں بلکہ سفارت کاری کا تجربہ حاصل کرنے، دنیا گھومنے اور ضیا الحق کی یونیورسٹی آف ڈکٹیٹر شپ میں ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں رسٹی کیٹ ہونے کے بعد ہی کچھ بنیں۔
 
یہ درست ہے کہ چونکہ زمانے کی رفتار پچھلے 40 برس میں انتہائی تیز ہوگئی ہے اس لیے بلاول بھٹو ثانی کو شاید اپنے نظریاتی پاؤں پر کھڑا ہونے کے ٹیے اتنا تربیتی وقت نہ مل پائے جتنا ان کے نانا اور والدہ کو ملا۔
ساتھ ہی ساتھ بلاول کو سیاسی بالغ ہونے کی راہ میں ایک ایسی مشکل بھی لاحق ہے جو ان کے نانا اور والدہ کو درپیش نہیں تھی۔
ذرا تصور کیجیےاگر پیپلز پارٹی ایک ایسے لمحے میں تشکیل ہوتی کہ سر شاہنواز بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو اس کے مشترکہ سربراہ ہوتے تو کیا پارٹی اتنی ہی موثر ہوتی جیسی کہ تاریخی طور پر ہوئی؟

خود بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ کی مشترکہ قیادت سیاسی حالات کے جبر کے باوجود بہت آگے تک نہ جا سکی اور ایک کو دوسرے کے حق میں دستبردار ہونا پڑا تب جا کے وہ بے نظیر سامنے آئی جسے آج سب جانتے اور مانتے ہیں۔
لیکن ایک گرم و سرد چشیدہ 62 برس کے والد اور پھوپھی کے سائے میں پیشہ ور خلیفوں، قصیدہ گر مشیروں اور کھڑ پینچ تقریر نویسوں میں گھرا 26 سالہ بلاول کرے بھی تو کیا کرے۔
اک اور انکل کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک انکل کے ساتھ گذرا تو میں نے دیکھا

(منیر نیازی صاحب مجھے معاف کردیجے گا)
سوائے اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کے درباری کلچر میں شاید ہی کھل کے یہ بات کوئی کہہ سکے کہ اب اننگز مکمل طور پر نئی نسل کے حوالے کردو اور عین میچ کی شدت کے درمیان پویلین میں بیٹھ کر اشارے کرکے کھلاڑی کو کنفیوز کرنے کے بجائے لڑکے کی جبلی صلاحیت پر بھروسہ کرو۔ مگر موجودہ پارٹی قیادت اعتزاز احسنوں اور رضا ربانیوں کی بات صرف احتراماً ہی سنتی ہے۔
ہر ایک کو خوش رکھ کے آگے بڑھنے کی جاگیردارانہ سوچ اور ببانگِ دہل ڈنکے پر چوٹ لگانے کی انقلابی خواہش کو سیاسی جار میں ڈال کر ایک نیا آمیزہ بنانے کا تجربہ تو آئن سٹائن بھی نہ کر سکا۔

آج کے 18 سالہ نوجوان کے لیے پیپلز پارٹی کے شاندار ماضی اور قربانیوں کی تکراری کہانی میں بالکل اتنی ہی کشش ہے جیسے مسلم لیگ اگلے الیکشن میں اس بنیاد پر ووٹ مانگے کہ اس نے سنہ 1947 میں پاکستان بنایا تھا۔
یہ بات بلاول بھٹو ثانی کی سمجھ میں شاید آ رہی ہے مگر ان مجاوروں کو کون سمجھائے جن کا روٹی پانی ہی مزار سے وابستہ ہے۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments