Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

عالمی مالیاتی فنڈ اور مستقبل کے پاکستان کی معاشی تصویر.........




نوازشریف حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ عام انتخابات کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک پیپر ورک تیار کیا تھا اور اسے حکومت کی معاشی ٹیم کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے عالمی این جی اوز، قوم پرست رہنمائوں اور جیو پولیٹکل امور کے ماہرین سے کیے جانے والے انٹرویوز کو بنیاد بناکر اپنی رائے قائم کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد سندھ، بلوچستان اور فاٹا میں شورش بڑھ سکتی ہے۔ متحدہ کی قیادت کے خلاف مقدمات اور تفتیش کی ٹائمنگ اور فاٹا کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یقینی طور پر آئی ایم ایف مستقبل کے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی مدد فراہم کرے گا۔

 وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 39 کھرب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال کا خسارہ شامل کرلیا جائے تو بجٹ کا کُل خسارہ 12 کھرب روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ دفاعی اخراجات نکال کر ملک میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومت کے پاس کُل 18 کھرب روپے دستیاب ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے دو ارب یورو بانڈز عالمی مارکیٹ میں فروخت کیے ہیں، اس پر چھ فی صد منافع کی یقین دہانی اور ضمانت دی گئی ہے۔ یہ بانڈز امریکی آئل کمپنیوں نے خریدے ہیں اور اس کا منافع آنے والی حکومت پانچ سال کے بعد دینے کی پابند ہوگی۔

یہ وہ معاشی تصویر ہے جسے سامنے رکھ کر عالمی مالیاتی فنڈ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات طے کرے گا۔ وہ اپنے ہر فیصلے سے قبل سندھ، بلوچستان اور فاٹا کی صورت حال کا نقشہ ایک پالیسی کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھے گا۔ جس ملک کی معیشت کا سارا انحصار غیر ملکی قرضوں پر ہو وہ کیسے خودمختار پالیسیاں مرتب کرسکتا ہے؟ وفاقی بجٹ پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس بجٹ کی ہر ہر سطر مبہم ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، عمل درآمد کے مرحلے میں پتا چلے گا کہ سرجن نے کہاں کہاں نشتر لگائے ہیں۔ بجٹ تیار کرتے وقت وزیر خزانہ کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ پاکستان کس طرح جی ایس پلس اسٹیٹس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اسی لیے حالیہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو غیر معمولی مراعات دی ہیں۔

حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن بجٹ میں یہ تعداد محض 12 فی صد بتائی گئی ہے۔ یہ وہ اہم منظرنامہ ہے جس میں قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر عام بحث شروع ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں۔ دونوں میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہم آہنگی نہیں ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ کے اندر حکومت کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ریکارڈ طویل تقریر کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی رائے ہے کہ وہ بجٹ کا پوسٹ مارٹم نہیں کرسکے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا ہے۔ بظاہر تو وہ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر دکھائی دیتے ہیں تاہم بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے نرم لفظوں میں بہت سخت باتیں کی ہیں۔ تحریک انصاف نے دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت سادگی اختیار کرے اور پاکستانیوں کی بیرون ملک رقوم تین سال کے اندر اندر پاکستان لانے کا بندوبست کرے، صوبوں کے ترقیاتی فنڈز مرکز کے منصوبوں میں شامل نہ کیے جائیں۔

آئینی لحاظ سے بجٹ منظور کرانا ہر حکومت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ جو حکومت بجٹ منظور نہ کرواسکے وہ خودبخود برطرف ہوجاتی ہے اور اس سے حقِ حکومت چھن جاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ حکومت بجٹ سازی کے وقت وزارتوں کے بجائے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے رائے لینے کی پابند ہوگی۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت اپریل میں بجٹ سے متعلق قائمہ کمیٹیوں سے رائے لے گی۔ لیکن ایوان میں کرائی گئی یقین دہانی کے باوجود یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ اور بہت سے دیگر پہلو نظرانداز کیے جانے کے باوجود بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا۔

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافے کا اعلان ہوا ہے اور اس فیصلے کا اطلاق پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں پر بھی ہوگا۔ پرویزمشرف دور میں قانون منظور کیا گیا تھا کہ جس شرح سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی اسی شرح سے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں بھی بڑھ جائیں گی۔ بجٹ میں وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں بھی دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے، حالانکہ فنانس بل 2014ء میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں، جبکہ وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی مجموعی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حقیقی اضافہ میڈیکل الائونس و کنوینس الائونس میں 10اور 5 فیصد اضافے کو شامل کرکے بھی پانچ فیصد تک ہوگا، جب کہ اس کے برعکس وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ کو مجموعی تنخواہ کا دس فیصد اضافہ ملے گا۔ رکن پارلیمنٹ کی اِس وقت تنخواہ 70 ہزار روپے ہے اور ہر رکن قومی اسمبلی کو یوٹیلٹی بل دینے کے بعد 51 ہزار روپے ملتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں حکومت نے ارکان صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فی صد تک اضافہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں ایک اور بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک انصاف اور حکومت مخالف سیاسی اتحادوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کو بھی حکومت نے سیاسی کمک اس لیے پہنچائی کہ متحدہ کہیں حکومت مخالف کیمپ میں نہ چلی جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں کراچی متاثر ہوگا اور غیر ملکی سرمایہ کاری رک جائے گی۔ مجوزہ سیاسی اتحادوں کی نرسری کی آکسیجن کاٹنے کے لیے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطوں کے لیے وزیراعظم نے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور عرفان صد یقی پر مشتمل 3رکنی کمیٹی کو ٹاسک دیا ہے، جس نے پہلا رابطہ جماعت اسلامی سے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور میاں اسلم سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ حکومت کا اگلا پڑائو اے این پی ہے۔ سینیٹر حاجی عدیل سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے اور وہ حالات کو آہستہ آہستہ وسط مدتی انتخابات کی جانب لے جانا چاہتی ہے، لیکن حکومت مخالف سیاسی اتحاد بن نہیں پا رہا کیونکہ اس اتحاد میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اتحاد کی لیڈر شپ کس کے پاس ہوگی؟ طاہرالقادری خود آگے آنے کے بجائے اپنے صاحب زادوں کو سیاست میں لارہے ہیں۔ عوامی تحریک کی اطلاع کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری کے فیس بک پیج پر مداحوں کی تعداد 20لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، ان میں نوجوان غالب اکثریت میں ہیں۔ طاہرالقادری نے اسلام آباد میں ایک کروڑ نمازی لانے کا دعویٰ کیا ہے۔ عوامی تحریک یہ تو بتائے ان میں ’’نمازی‘‘ کتنے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ اس کی بنیاد پر پاکستان آنے کا فیصلہ کرنے سے قبل پرویزمشرف سے لازمی مشورہ کرلیا جائے۔

حال ہی میںسیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے دوسرا پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان جاری کیا ہے جس کے مطابق آئندہ انتخابات میں ووٹنگ الیکٹرونک طریقے سے کی جائے گی، اور انتخابات سے قبل مردم شماری کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ نئی حلقہ بندیاں کی جاسکیں۔ الیکشن کمیشن نے پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے آراء مانگی تھیں لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی دوسری جماعت نے الیکشن کمیشن کو تجاویز نہیں بھجوائیں۔ تحریک انصاف تو الیکشن کمیشن کے ارکان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے جن کی معیاد 2016ء میں ختم ہورہی ہے۔ حکومت نے انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسی ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے سابق اسٹیشن ہیڈ جوناتھ بینکس اور ان کے قانونی مشیر جان ایروز کے خلاف ڈرون حملے پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی سنایا ہے۔ ایک شہری کریم خان کی طرف سے رٹ دائر کی گئی تھی کہ ڈرون حملے میں اس کا بیٹا زین اللہ اور بھائی آصف کریم جاں بحق ہوگئے تھے، دونوں پُرامن شہری تھے اور کسی تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی کسی مقدمہ میں مطلوب تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کے الزامات میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ حکم ریاست کی رٹ اور آئین کی حکمرانی کا مظہر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انتظامیہ اس حکم پر عمل کرے گی یا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا؟

ابھی حال ہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین کے دورے پر گئے جہاں چینی حکام سے ان کی ملاقاتوں میں ایسٹ ترکستان موومنٹ کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب سربراہ یافین چنگ لانگ نے بیجنگ میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا، اور چین نے ایسٹ ترکستان موومنٹ کے خلاف پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ ای ٹی آئی ایم کو دونوں ملکوں کا مشترکہ دشمن قرار دیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پیمرا نے بھی انگڑائی لی ہے۔ پیمرا کے قائم مقام چیئرمین پرویز راٹھور کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں جیو ٹی وی چینل کو آئی ایس آئی کے خلاف مہم پر ایک کروڑ روپے جرمانہ اور اس کا لائسنس پندرہ روز تک معطل کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے رد عمل دیا کہ پیمرا کے فیصلے سے وزارتِ دفاع مطمئن نہیں ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔ اس سے قبل عسکری ذرائع نے رد عمل دیا تھا کہ ’’ہم حالتِ جنگ میں ہیں، ہمارے خلاف مہم جوئی کے مقاصد کیا تھے، یہ عزائم سامنے آنے چاہئیں، جیو کو ملنے والی سزا کم اور تاخیر سے دی گئی ہے، لیکن ہمارے خلاف مہم جوئی کا حساب کون دے گا؟‘‘ وزارتِ دفاع کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ جیو کی مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس معاملے کے حل کے لیے سی پی این ای، پی ایف یو جے اور ایپنک کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ایک نیا ضابطہ اخلاق مرتب کررہی ہے۔ یہ سب کچھ دکھاوا ہے، اصل فریق دو ہی ہیں، (1) میر شکیل الرحمن اور(2) وزارتِ دفاع۔ ان میں سے ایک فریق کا مطالبہ ہے کہ اسے پچاس ارب روپے دیے جائیں، دوسرے کا مطالبہ ہے کہ ایک کروڑ جرمانہ کم سزا ہے۔ جیو انتظامیہ نے خود ایک ہفتہ کے لیے چینل بند کرنے اور معافی مانگنے کی پیش کش کی تھی لیکن میر شکیل الرحمن اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے معاملہ حل نہیں ہورہا۔ جیو انتظامیہ چاہتی ہے کہ وہ رمضان المبارک سے قبل معاملہ طے کرلے تاکہ اسے رمضان المبارک کی نشریات کے لیے اسپانسر شپ مل سکے، لیکن اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس کھیل میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ یہ نجی ٹی وی چینلز اس معاشرے کی اخلاقی اور سماجی روایات کے ساتھ جو کھلواڑ کررہے ہیں، اس کی تلافی کے مطالبے کے ساتھ کون آگے آئے گا؟

میاں منیر احمد



Post a Comment

0 Comments