Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

تاریخ ساز کردار کی شرائط.......


جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے تب تک عمران خان کی سونامی اسلام آباد میں سے ہو کر واپس اپنے گھروں میں پلٹ چکی ہو گی۔ طاہر القادری نے موسم کی تبدیلی سے لے کر لوڈشیڈنگ میں کمی تک تمام کرشمے اپنے نام کر کے یہ دعویٰ کر دیا ہو گا کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا آغاز کر چکے ہیں۔ شیخ رشید بھی نواز حکومت کے دن گن چکے ہوں گے اور اپنے مخصوص انداز میں پیشین گوئیوں کا ایک انبار عظیم بھی کھڑا کر دیا ہو گا۔ مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ ایسا نہیں ہو گا جس سے عوام میں یہ تا ثر پیدا ہو پائے کہ 11 مئی کی تاریخ کو ہونے والے احتجاج نے کسی بڑی تبدیلی کی بنیا د رکھ دی۔ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت اتنی مقبول ہے کہ اس کی طر ف پھینکا ہوا ہر ایک تیر واپس وار کرنے والے کو چھید دیتا ہے۔

ایک سال میں نواز حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انھوں نے اپنے دو ادوار اور پنجاب میں ملا کر 25 سال کے سیاسی تجربے سے صرف ایک ہی بات سیکھی ہے اور وہ یہ کہ اُن کو کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کرنے کے لیے دو دہائی، چند بچے اور قریبی رشتہ دار ہی کافی ہیں۔ افسر شاہی کا بے دریغ سیاسی استعمال اور عوام کے وسائل کا مہنگے منصوبوں اور اشتہار بازی میں استعمال وہ طریقے ہیں جو نواز لیگ کی قیادت ہمیشہ سے کرتی رہی ہے۔ ان میں کسی قسم کا کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔ جہاں تک اس قومی ترقی کے چیلنج کا تعلق ہے اس پر نہ کوئی شفافیت ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شعوری کوشش جس کو ویژن کا نام دیا جا سکے۔

ہاں خطیر لاگت سے بننے والے منصوبے بیسیوں ہیں۔ مگر جس قومی پیرائے میں ان منصوبوں نے مربوط ترقی اور دیرپا امن کے خواب پورے کرنے ہیں وہ ندارد ہے۔ پولیو اور بجلی کا مسئلہ دو ایسی مثالیں ہیں جن کو سامنے رکھ کر یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نواز لیگ کا تصور قومی ترقی دیرپا منصوبہ بندی سے کسی حد تک عاری ہے۔ ان دونوں معاملات پر اگر ذرایع ابلاغ میں مچائے شور کو سنیں تو آپ یہ سمجھیں گے کہ جیسے ان سے زیادہ توجہ کسی اور مسئلے پر دی ہی نہیں جا رہی۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ یہ مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح امن و امان کا معاملہ ہے جس پر ایک سال میں طرح طرح کی کہانیاں گھڑنے کے سوا کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آئی۔

کراچی، بلوچستان، اداروں کی فعالیت۔ غرض یہ کہ آپ جو شعبہ بھی اٹھا لیں وہاں پر آپ کو یا تو معاملات جوں کے توں نظر آئیں گے اور یا پھر حالات بدلنے کی ٹوٹی پھوٹی کوشش جس کے انجام کے بارے میں ہر کوئی شک میں مبتلا نظر آئے گا۔ دوسرے ادوار کی طر ح اس مر تبہ بھی نواز لیگ نے اقربا پروری اور دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تحقیقاتی ادارے ہوں یا قومی سطح پر اثرانداز ہونے والی تعیناتیاں اس حکومت کی پرکھ کا معیار صرف ایک ہے ’’ہمارے جاننے والے ہیں یا نہیں‘‘۔ جو یہ کوائف نہیں رکھتا اس کی فائل وزیر اعظم کے پسندیدہ افسران ردی کی اس ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں جس میں سے کبھی کوئی کاغذ واپس نہیں آتا۔

آنے والے دنوں میں اپنی پسند کے معیار پر ہونے والی تعیناتیوں کا دائرہ کار عسکری حلقوں میں بھی پھیل جائے گا۔ آپ یوں سمجھیں کہ اس پر ابھی سے کام کیا بھی جا چکا ہے۔ قصہ مختصر نواز لیگ اس ملک کو ویسے ہی چلا رہی ہے جیسے وہ چلایا کرتی تھی۔ اس کا تعلق نہ اس کے مینڈیٹ سے ہے اور نہ ہی موقع کی مناسبت یا قومی ضرورت سے۔ نواز شریف ایسے ہی ہیں اور صرف یہی کچھ کر سکتے ہیں۔ ان سے اس زیادہ کی امید رکھنا چھلنی میں ریت سمیٹنے کی طر ح ہے۔

ظاہر ہے ہر ذی شعور پاکستانی جس کی زندگی کے تمام خواب اس امید سے وابستہ ہیں کہ وہ کبھی نہ کبھی ترقی کے وہ مناظر دیکھے گا جنھیں وہ کتابوں میں دوسرے ممالک کے حوالے سے پڑھتا چلا آ رہا ہے، موجودہ انداز حکمرانی سے مطمئن نہیں ہو گا۔ جمہوریت کی خاصیت ووٹ کے ذریعے طاقت میں آ کر اپنے خاندان کی اجارہ داری قائم کرنا نہیں ہے۔ عوام کی حکمرانی وہ حقیقی فلاح ہے جو اس وقت ملک کی اکثریت کو نا میسر ہے۔ مگر اس موقع کو نظا م اور انتظام حکومت کو تبدیل کر نے کے لیے جو متبادل تصور ترقی، منزل واضح اور روشن ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ایسے تصور کو تراشنے میں ابھی تک ناکام رہی ہے۔11 مئی کے جلسے (جس میں عمران خان الیکشن کمیشن کے از سر نو تخلیق کے علاوہ ملک گیر تحریک کا منصوبہ بھی پیش کر چکے ہوں گے) کے محرکات اور اہداف کے بارے میں عجیب و غریب غیر یقینی کی کیفیت طاری رہی۔ میں نے جس سے بھی بات کی اس نے اس کا مقصد مختلف بتلایا۔ بعض اس کو نظام انتخابات کی تبدیلی تک محدود کر رہے تھے جب کہ بعض کے مطابق یہ آغاز اختتام نواز حکومت کا بگل تھا۔ کچھ اس کو قومی تحریک کہہ کر خوش ہو رہے تھے۔ جب کہ کوئی اس کو بجلی کے بحران کے حل کے طور پر لے رہے تھے۔

تحریک انصاف کی اپنی قیادت آخری گھنٹوں تک یہ سوچ رہی تھی کہ عمران خان کو تقریر میں ترجیحات کی فہرست کیسے ترتیب دینی چاہیے۔ عمران خان کی خواہش کے مطابق ملک کے دوسرے حصوں میں منعقد ہونے والے جلسوں پر بھی ہر کوئی مطمئن نہیں تھا۔ اس ابہام کی بڑی وجہ اس مدبرانہ سوچ کی کمی ہے جس کی غیر موجودگی میں بہترین مواقع بھی ضایع ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کو موجودہ حالات میں سے اگر اپنے لیے کسی تاریخ ساز کردار کی تصویر بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے تو اس کو پانے کے لیے پہلے ان خود سے یہ سوال پو چھنا ہو گا: میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟ اس کا جواب پائے بغیر وہ تاریخ میں جلسوں کے ماہر کے علاوہ بڑا مقام پانے میں شائد کامیاب ہو سکیں۔

طلعت حسین    

Post a Comment

0 Comments