Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جیل کے ساتھی…


قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔

عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔

ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔

یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔

ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔

اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔

جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔

جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔

غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔

قادر خان   

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments