Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

میرا لیڈر زندہ باد


متوسط طبقے اور قیادت کے موضوع پر کالم کیا لکھ ڈالا مختلف جماعتوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ تقریباً ہر سیاسی پارٹی کی طرف سے شکایت آئی کہ آپ نے ہماری اعلیٰ قیادت کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سیاسی کارکنان اور اپنے لیڈر کے متوالوں کا مزاج اور بھی بگڑا ہوا تھا۔ بعض نے لعن طعن کی اور بعض نے ذاتی حملے۔ کچھ نے جملے کسے اور کچھ نے میری صحافت کی خوب مرمت کی اور کہا کہ میں کسی ایجنڈے پر کام کر رہا ہوں۔ مگر عمومی طور پر ردعمل مثبت رہا۔ اکثریت تک میرا بنیادی نکتہ پہنچ گیا۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے پڑھنے والے کس حد تک اس تجزیے سے متفق ہیں کہ ملک کو صحیح ڈگر پر لانے کے لیے ہمیں متوسط طبقے کو مضبوط کرنا ہو گا۔ مگر آراء اور تنقید کے اس ریلے نے کم از کم یہ بات تو ثابت کر دی پاکستان میں قیا دت کے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جو بھی اس موضوع پر قلم اٹھائے گا وہ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑے گا۔

ایسا کیوں ہے؟ ہم اپنے من پسند کے سیاسی لیڈروں سے اس قدر گہرا تعلق کیسے بنا سکتے ہیں کہ اُن کو دیوتا سمجھ کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں؟ امام سمجھتے ہیں اور اُن کی خدمت کو اپنا ایمان مانتے ہیں۔ عقلی دلیل اور تاریخی حقائق کو کنویں میں پھینک دیتے ہیں اور بدترین چہرے پر تعریف کے ایسے سہرے باندھتے ہیں کہ جیسے نو بہنوں کا اکلوتا بھائی دولہا بنایا جاتا ہے۔ اس مجنوں پن کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک کا تعلق اس قومی خواہش سے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل فوری طور پر ایسے ہو جائے کہ ہمیں بھی حیران کر دے۔ اقوام کی ترقی کی طویل اور تکلیف دہ تاریخ پڑ ھتے ہوئے ہم کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور جلدی جلدی سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ کوئی مسیحا کہیں سے نمو دار ہو اور ہمیں پرخار راستوں سے بچا کر منزل کے سامنے لا کھڑا کرے۔ اس خواہش کے تابع دیوانے گلی سے گزرنے والے ہر اس شخص کی طر ف متوجہ ہو جاتے ہیں جو بلند آواز لگا کر مٹی کو سونا بنا نے کے دعوے کرتا ہوا گھر میں گھس جاتا اور پھر عورتوں کے زیورات ہتھیا کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔

سیاست کے میدان میں موجود بڑے شطرنج باز ہماری اس کمزوری کو اچھی طرح بھانپ چکے ہیں۔ اُن کو معلوم ہے کہ صرف صحیح نعرہ لگا نے کی ضرورت ہے ایک وارفتہ ہجوم لبیک کہتا ہوا حاضر ہو جائے گا۔ اُن کو یہ خطرہ بھی نہیں ہوتا کہ توقعات اور خواہشات کی گٹھٹریاں سر پر اٹھا ئے یہ لوگ کہیں اُن سے یہ سوال بھی نہ پو چھ لیں کہ اُن سے کیے ہوئے وعدے کتنے قابل عمل اور کتنے احمقوں کی جنت کے نظارے ہیں۔ ہجوم کی نفسیات میںچھان بین نہیں ہوتی۔ وہ ٹٹولنے کی حس سے عاری ہوتا ہے۔ وہ یا تو مار دینے کا سوچتا ہے یا مر جا نے کا۔ جس نے ہجوم کی اس جبلت کو سمجھ لیا اُس کے لیے لیڈر بن جانا اُتنا ہی آسان ہے کہ جتنا اُس کے پیچھے چلنے والوں کے لیے یہ سمجھنا کہ اُن کو نخلستان کی طرف لے جانے والے دراصل اُن کو صحرا کے ریتلے بگولوں میں ایسے گم کر رہے ہیں کہ وہ اپنی سمت ہی بھول جائیں گے۔ ہجو م میں سے کوئی خود سے آواز بلند نہیں کرتا کہ اس کارواں کو چلانے والوں کی اصل قابلیت کیا ہے؟ لہذا نوسربازوں کی چاندی ہوئے رہتی ہے۔ وہ وعدے پر وعدے کیے جاتے ہیں اور ہر طرف سے داد ملتی رہتی ہے۔

لیڈروں پر اندھا اعتماد اور اُن کو حقیقت کے پیرائے سے نکال کر جناتی مخلوق میں تبدیل کر کے پیش کرنے کی یہ عادت اُس بے چارگی اور بے بسی کی ہی دلیل ہے۔ جو برسوں سے نظام کے ہاتھوں مارے ہوئے شہریوں پر طاری ہے۔ زندگی اس قدر مشکل بنا دی گئی ہے کہ ٹھیک سے سانس لینا بھی دوبھر ہو چکا ہے۔ غربت،افلاس، بھوک، بیماری اور ظلم قوم کی اکثریت کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے جسم کے اعضاء کاٹنے کو تیار ہیں۔ نسبتاً بہتر حالت میں رہنے والوں کے حالات بھی ابتر ہیں۔ پچاس ڈگری کے درجہ حرارت میں 18 گھنٹے 12 افرادِ خانہ کے ساتھ دس ضرب دس کے کمر ے میں ایک دن گزارنے سے ہی دماغ پگھل جاتا ہے۔ اگر یہ یا اس جیسا دوسرا کو ئی ظلم اگر روزمرہ کی گزر اوقات کا حصہ ہی بن جائے تو بڑے بڑے ہاتھ جوڑ کر یہ کہیں گے ’’خدارا ہمیں بچا لو‘‘ خلق خدا کی یہ بپتا قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔ اس نظام میں طاقت ور طبقے نے انتہائی عقل مندی کے ساتھ اس قوم کے بڑے حصے کو آلہ تنفس پر رکھا ہو ا ہے جہا ں سے ایک سانس آتا ہے اور ایک جاتا ہے۔ ایک ایسی حالت جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بر ی طرح متاثر ہو جاتی ہے۔

اور مریض مکمل طور پر آکسیجن مہیا کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ ضروریات کی اس دائمی کمی کو پہلے پیدا کیا جا تا ہے اور پھر اس کو پو را کر نے کی منصوبہ بندی بنا کر مسیحا کی نشست سنبھالی جاتی ہے۔ پہلے خنجر پیٹھ میں گھونپتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ نکالتے ہوئے اپنے نام کا ورد کرنے کا مطالبہ بھی کر تے ہیں۔ اب جو مر رہا ہو گا وہ کیا نہ کر ے گا؟ ورد بھی کر ے گا۔ تسبیح بھی پڑھے گا۔ سجدہ ادا کر ے گا۔ مگر شاید اس ملک میں لیڈران کی بہتات اور ان کے ماننے والوں کے دیوانے پن کی سب سے بڑی وجہ مطالبہ نہ کر نے کی عا دت ہے۔ کتابوں میں درج تاریخ سے بڑا استاد اور کوئی نہیں ہے مگر سیکھنے والے بہت کم ہیں۔ ٹی وی کی اسکرینوں سے نمودار ہو نے والی گمراہ کن تصویرو ں نے سیاسی تعلیم کو مصنوعی قربت کے زاوئے سے عام تو کر دیا ہے۔


گر اس کی بنیاد انتہائی کمزور ہے نعر ے، تسلیاں، دعوے، ایک دوسرے پر لفظی حملوں کے اس تماشے نے ان تمام اسباق کو ہمارے ذہنوں سے دور کر دیا ہے جو ہم مطالعے کے ذریعے حاصل کر سکتے تھے۔ ایک جلسے میں دور سے کھڑے ہو کر نعر ے لگا نے والے خو د کو تجزیہ نگار سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اُ ن کو اس سے کو ئی غرض نہیں کہ اُن کے مندر میں کھڑا بت کتنا بے وقعت اور جعلی ہے۔ و ہ تو بس پوجا پاٹ میں لگے ہو ئے ہیں۔ بت کدوں کے نقلی خداوں کے لیے اس سے زیادہ سازگار ماحول اور کیا ہو گا۔ نہ ان کو ٹوٹنے کا خدشہ ہے اور نہ کوئی توڑ نے والا ہے۔ ان پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں مگر نذرانے د ینے والے بہت ہیں۔ کیا بہترین کا روبار ہے۔ بہت خوبصورت ملک ہے۔ کتنی اچھی قوم ہے۔ لیڈر اصل میں کیسے ہیں اور کیسے ہونے چاہئیں اس کے لیے اگلے کالم کا انتظار کیجیے۔

طلعت حسین

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments