Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جن قوموں کو اپنا وقار عزیز ہوتا ہے...........


جب بھی قومی غیرت اور خودمختاری کی بات ہوتی ہے،ہمارے دانش گرد حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک ہی بات کی جُگالی کرتے نظر آتے ہیں کہ بھکاریوں کی زبان سے ایسے الفاظ اچھے نہیں لگتے۔

ہم امریکہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں ،اس کی دی ہوئی امداد سے ہماری روزی روٹی چل رہی ہے،ایسے حالات میں حکومت ڈرون حملے رکوانے کیلئے کیا کر سکتی ہے؟نیٹو سپلائی کی بندش پر عمران خان کو بھی یہی طعنہ دیا جا رہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تمہاری حکومت امریکہ سے 500 ملین ڈالر کی امداد لے رہی ہے اور تم امریکہ سے پنگا لینے کی بات کرتے ہو، اگر ہمت ہے تو پہلے اس امریکی امداد کو لات مارو۔ نوٹنکی کے طور پر پنجاب حکومت نے امریکی امداد کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا ہے اور اس کا مقصد تحریک انصاف کو مشتعل کر کے خیبرپختونخوا میں اس طرح کا فیصلہ کرانا ہے۔

پہلی دروغ گوئی تو امریکی امداد کی اصطلاح ہے، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت پر ہمیں جو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے،امریکہ اس کے زر تلافی کے طور پر ہمیں ڈالر دے رہا ہے۔ امریکی کانگریس کی دستاویزات میں بھی اسے امداد نہیں بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کہا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کے تخمینوں کے مطابق گزشتہ 12سال کے دوران امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمیں 100بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ اس دوران امریکہ نے تمام مدات میں پاکستان کو صرف17.83بلین ڈالر کی ’’خیرات‘‘ دی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ترقی یافتہ ممالک اپنی جی ڈی پی کا 0.7فیصد ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کیلئے وقف کرنے کے پابند ہیں اور یہ خیرات نہیں بلکہ ایک طرح کا فرض بھی ہے اور قرض بھی۔امریکہ ہر سال 50 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد دیتا ہے جس میں سے سب سے زیادہ حصہ اسرائیل کا ہے۔اسرائیل ہر سال 3075ملین ڈالر امریکی امداد وصول کرتا ہے مگر کبھی اس کے رویّے میں عاجزی و انکساری دیکھنے کو نہیں ملی۔ اردن جیسا امیر ملک امریکہ سے سالانہ 676 ملین ڈالر امداد لیتا ہے، مصر کو اس مد میں ہر سال 1557ملین ڈالر ملتے ہیں۔ معاشی ترقی کے اعتبار سے بھارت ہم سے کہیں آگے ہے اور اس کا کشکول بھی ہم سے کہیں زیادہ بڑا ہے مگر اس نے کبھی اپنے ملکی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ بھارت جاپان سے امداد لینے والے ممالک میں سرفہرست ہے ،یہاں تک کہ جب سونامی کے بعد جاپان نے بیشتر ممالک کی امداد بند کر دی تو تب بھی بھارت کی امداد میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔

برطانیہ سے امداد لینے والے ممالک میں بھی بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کا غریب ترین ملک ایتھوپیا برطانیہ سے 324 ملین پؤنڈ کی امداد لیتا ہے جبکہ بھارت کو سالانہ 300 ملین پاؤنڈ ملتے ہیں۔پاکستان جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگاڑی ریاست کا درجہ حاصل ہے اسے سالانہ 215 ملین پاؤنڈ ملتے ہیں۔رواں سال جب بھارت نے 126جنگی جہاز خریدنے تھے تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون لابنگ کرنے کے لئے خود دہلی گئے، پاکستان کے خلاف بیان دیا تاکہ برطانوی کمپنی BAE کے یورو فائٹر ٹائفن خریدنے پر رضامند کیا جا سکے لیکن بھارت نے برطانیہ کی ناراضی مول لیکر13بلین پاؤنڈ کا یہ ٹھیکہ فرانسیسی کمپنی کو دے دیا کیونکہ ان کے خیال میں یہی ملکی مفاد کا تقاضا تھا۔سری لنکا بھی برطانیہ سے امداد لیتا ہے لیکن جب چند ہفتے قبل ڈیوڈ کیمرون نے تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن سے متعلق بیان دیا تو سری لنکا کے وزیراعظم نے کہا،زبان سنبھال کر بات کریں ،ہم آپ کی کالونی نہیں ہیں۔

جن قوموں کو اپنا وقار عزیز ہوتا ہے وہ نفع نقصان سے بالاتر ہو کر فیصلے کیا کرتی ہیں۔ مہاتیر محمد ملائیشیا کے وزیراعظم تھے تو انہوں نے ایک بیان پر امریکی نائب صدر الگور کو ملک بدر کر دیا۔ براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ملک بولیویا کے صدر ایوو مورالیس نے اندرونی معاملات میں درپردہ مداخلت پر امریکی سفیر گوئڈ برگ کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اگلے دن جوابی کارروائی کے طور پر امریکی حکومت نے بھی بولیوئین سفیر کو ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس پر وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز نے امریکی سفیر کو یہ کہ کر اپنے ملک سے نکال باہر کیا کہ جہنم میں جاؤ غلیظ امریکیو!ہم خوددار لوگ ہیں۔حالانکہ امریکہ وینزویلا کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اگر امریکہ سالانہ 40بلین ڈالر کا تیل نہ خریدے تو اس کی معیشت کے غبارے سے ہوا نکل جائے۔ چند دن بعد ہنڈراس کے صدر فیوئیل زی لایا نے احتجاجاً امریکی سفیر کی اسناد سفارت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وینزویلا کی آبادی تین کروڑ ہے اور یہ تینوں ممالک کسی اعتبار سے پاکستان کے ہم پلہ نہیں۔ ان کے پاس نہ تو ایٹم بم ہے نہ آبدوزیں ہیں نہ ہی میزائل اور جدید جنگی جہاز ہیں۔اگر امریکہ ان پر چڑھ دوڑے تو یہ تین دن کے لئے بھی مزاحمت نہیں کر سکتے،لیکن انہیں معلوم ہے کہ جب کوئی قوم لڑنے مرنے پہ تیار ہو جاتی ہے تو پھر لڑائی کی نوبت نہیں آتی۔آپ ایران کو دیکھ لیں،امریکہ کب سے اس پر حملہ کرنے کو تیار بیٹھا تھا،2جنوری 2011ء میں پاسداران انقلاب نے جاسوسی کرنے والے دو امریکی ڈرون خلیج فارس میں مار گرائے مگر امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔

بھارت کی سمندری حدود میں اطالوی فوجیوں کی فائرنگ سے چند بھارتی مچھیرے مارے گئے تو ان فوجیوں کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلا۔ جب اطالوی سفیر کی ضمانت پر انہیں رہائی ملی اور انہوں نے واپس آنے سے انکار کر دیا تو بھارتی ہائیکورٹ کے حکم پر اطالوی سفیر کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ امریکیوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں ہمارے فوجی مار دیئے، ہم نے سات ماہ نیٹو سپلائی روکے رکھی مگر امریکہ نے معافی نہ مانگی اور ہم نے پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے نیٹو سپلائی کھول دی۔ امریکہ افغانستان اور عراق سمیت مختلف ممالک سے سویلین ہلاکتوں پر 102 مرتبہ معافی مانگ چکا ہے مگر ہمیں محض اظہار افسوس پر ٹرخا دیا گیا۔

امریکیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ ڈرون حملوں کے ایشو پر سب اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔عمران خان کا اخلاص اپنی جگہ لیکن خیبرپختونخوا کی حکومت سنجیدہ ہے تو ہنگو حملے کی ایف آئی آر سی آئی اے چیف کے خلاف کیوں نہیں کاٹی گئی؟اگر میاں نواز شریف کی حکومت واقعی خلوص نیت کے ساتھ ڈرون حملوں پر احتجاج کرتی ہے اور امریکہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تو سنجیدگی ظاہر کرنے کے لئے امریکی سفیر کو ملک بدر کیوں نہیں کیا گیا؟پاک فوج کو ڈرون گرانے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟اس لئے کہ اگر ہم نے امریکی ڈرون مار گرایا تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔یہ توجیہ سن کر لگتا ہے پاکستان کوئی ملک نہیں بلکہ سہمی ہوئی رضیہ ہے جو غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔

اگر وہ چاہے تو انہیں روک سکتی ہے اس کے ہاتھ میں پستول ہے جس سے غنڈوں کو گولی ماری جا سکتی ہے مگر وہ یہ سوچ کر کوئی قدم نہیں اٹھاتی کہ گولی چلا کر اپنی عزت تو بچا لے گی لیکن بعد میں اس پر قتل کا مقدمہ ہو جائے گا....اس کی یہ نرالی منطق دیکھ کر مجھے بدنام زمانہ نصیحت یاد آتی ہے کہ جب جبری زیادتی کو روکنا ممکن نہ ہو اور ناگزیر ہو جائے تو پھر چیخ و پکار کرنے کے بجائے لطف اندوز ہوا جائے۔ اب یہ بات کون سمجھائے کہ محض التجاؤں سے کچھ نہیں ہوتا،آپ لٹیرے کو اللہ رسول ﷺ کے واسطے دیں ،اردو میں بات کریں ،انگریزی میں مدعا بیان کریں ،دھیمے لہجے میں عرض کریں ،غصے میں آ جائیں یا جی بھر کر چلّائیں، ہونی ہو کر ہی رہتی ہے۔اس ہونی کو ٹالنے کا تو بس ایک ہی راستہ ہے کہ خوابیدہ غیرت کو جگائیں اور اپنی حرمت کے لئے لڑ مر جائیں یا پھر ضمیر کو ایک ہی بار تھپکی دے کر سلائیں، حِظ اُٹھائیں اور احساس ندامت و ملامت سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑائیں۔

بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments