Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پشاور دھرنا …ممکنہ فوائد اور نقصانات............طلعت حسین


 

پاکستان تحریک انصاف نے نیٹو رسد کے خلاف دھرنا دے کر اپنا ایک وعدہ تو یقیناً پورا کردیا ہے۔ راولپنڈی سانحہ کے بعد جب اس کی تاریخ تبدیل کی گئی تو بہت سے ذہنوں میں یہ شکوک پیدا ہوئے کہ آیا خیبرپختونخوا کی حکومت سیاسی اتحادیوں کے ساتھ مل کر سڑکیں اور رستے بند کرنے کی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنا پائے گی۔ کل ایک بڑے اجتماع کو اکھٹا کرکے عمران خان اور ہم خیال سیاسی جماعتوں نے اس حد تک تو کام کر دکھایا۔ جب بھی لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اُس کے ممکنہ مثبت پہلووں کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی جڑے ہوتے ہیں۔ چیلنجز بیان کرنے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کو اس پالیسی کے ذر یعے جو فائدہ پہنچ سکتا ہے اُس کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔ پنڈال میں بڑے بڑے بینرز پر لکھا ہوا یہ نعرہ ’’دھرتی ہماری، مرضی‘‘ ہماری اُس قومی جذبے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیسیوں سالوں سے بیرونی دراندازی اور اندرونی لڑائیوں میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ وطن سے محبت کو ایک طعنے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

پاکستانیت یا پاکستانی ہونا غریبوں کے لیے بے معنی، متوسط طبقے کے لیے مذاکروں کا موضوع اور نام نہاد امراء کے لیے باعث تمسخر ہے۔ دھرتی کی عزت اُس کے تحفظ سے ہوتی ہے۔ جس ماں کی چادر میں چھید ہو اُ س کی اولاد یہ کبھی دعویٰ نہیں کرسکتی کہ انھوں نے اپنی اجتماعی عزت کی لاج رکھی ہے۔ ہمار ے وطن کا دامن تار تار ہے۔ عمو ماً سیاسی جماعتیں اس قسم کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومیت کے جذبے کو اپنے اور ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ملکی پرچم کو پارٹی پرچم سے اوپر لہرا کر اُن کروڑوں پاکستانیوں کی توجہ اور ستائش حاصل کرپائے جو خود کو سبز اور سفید رنگ کے سوا کسی اور رنگ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ پاکستان تحریک انصاف اگرچہ خارجہ پالیسی کے ایک معاملے کو بنیاد بناکر قومی ضرورت اور اپنی دھرتی کے تحفظ کی بات کررہی ہے مگر اس موقعے پر اس نعرے کے اس طرح پھیلنے کے بہترین امکانات موجود ہیں کہ اس کو ایک قومی تحریک میں تبدیل کر دیا جائے۔

دوسرے الفاظ میں ظاہراً معاملہ نیٹو رسد بند کرنے اور ڈرون حملوں پر احتجاج کا ہے۔ مگر اس کے پیچھے پاکستان کی بطور ملک عزت نفس اور اُس کی خود مختاری کا بھی سوال ہے جس کا جواب دینے سے پہلے ہی حکمران ایک ایسی فضول بحث اور باہمی طعنوں کے کھیل کا آغاز کر دیتے ہیں کہ پوچھنے والا چکرا کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اگر اپنے تصور کو مزید وسعت دے تو وہ یقیناً اِ س خلا کو پر کرسکتی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ابھی تک کسی نے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس دھرنے کو اس وجہ سے بھی اہمیت مل رہی ہے کہ حکومت وقت تنقید برائے تنقید کے علاوہ کوئی خاص رد عمل نہیں بناپائی۔ وزیراعظم پاکستان ایک طرف ڈرون حملوں کو پاکستان کے مفادات اور سرزمین پر ضرب کاری کا درجہ دیتے ہیں اور اِن پر احتجاج کو جائز کہتے ہیں۔

مگر دوسری طرف اُن کے وزیراطلاعات اس کی عملی شکل کو شعبدہ بازی قرار دینے کے لیے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کر ڈالتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے پاس یا تو قومی غصے کے اظہار کا کوئی اپنا طریقہ ہونا چاہیے اور یا پھر بطور سیاسی جماعت اُس کو تحریک انصاف کے دھرنے کے ساتھ منسلک ہوکر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اُن کا افسوس بناوٹی نہیں ہے۔ اور وہ حقیقت میں بذریعہ اقدامات کرکے امر یکہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہے کہ اُس کی طرف سے ہونے والے حملے ناقابل قبول ہیں۔ ابھی تک نواز لیگ نے یہ دونوں کام نہیں کیے لہذا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نواز لیگ کا موازنہ کچھ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک کھلاڑی اورکمینٹٹر کا ہو ایک مید ان میں کھیل رہا ہے اور دوسرا شیشے کے کمرے میں بیٹھ کر تجزیوں اور بیانات سے خانہ پُری کر رہا ہے۔

مگر پاکستان تحریک انصاف کے سامنے چیلنجز بھی بے شمار ہیں۔ ماضی میں اس قسم کے دھرنے علامتی حیثیت رکھتے تھے۔ چند گھنٹے یا ایک دن اور ایک رات پر محیط احتجاج عملی بھی لگتا ہے اور اس کو سنبھا لنا بھی آسان ہوتا ہے مگر حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے شہروں کو بند کرنا اور مسلسل عوامی احتجاج کی کیفیت برقرار رکھنا مشکل تو ہے ہی نا ممکن بھی بن سکتا ہے۔ انتخابات 2013ء سے پہلے مولانا طاہر القادری نے اسلام آباد میں جو احتجاج کیا وہ شاید ہماری حالیہ تاریخ کا طویل ترین احتجاج تھا۔ مگر طاہر القادری ہجوم کو باہر سے لائے تھے۔ وہ حکومت کا برج الٹانے کی بات کرر ہے تھے اُن کے لیے گڑبڑ کا پھیلنا سیاسی فائدے کا باعث بنتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اگرچہ حضرت مولانا کا دھماکا اُن کے قاعدے کے مطابق آخر میں ایک بچگانہ پٹاخہ ثابت ہوا مگر وہ ان چار پانچ دنوں میں وہ کچھ کر پائے جو دوسری جماعتوں کے ہاتھ سے نہ ہوا۔

عمران خان کی جماعت طاقت میں ہے‘ اُس کو صوبہ چلانا ہے حکومت کی کارکردگی ویسے بھی واجبی سی ہے۔ ترقیاتی بجٹ آدھا سال مکمل ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر استعمال ہوا ہے۔ ایسے میں احتجاج کے عمل کو جاری رکھنا ایک بڑا درد سر بن سکتا ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کی حکومت نیٹو ٹرکوں کے جانے کے رستے کو بند کررہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے نکلنے والی افواج اور اُن کے سازوسامان کے ر ستے بھی روک رہی ہے تو وفاقی حکومت کے ساتھ ہم آ ہنگی بنائے بغیر اس احتجاج سے ممکنہ فائدے یکسر نقصان میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے ان تمام ممکنات پر غور کیے بغیر میدان میں چھلانگ لگا د ی ہے توخسار ے کا خانہ فائدے کے کھا تے سے بھاری بھی ہو سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments