Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

آئی ایم ایف کی شرائط اتنی سخت کیوں؟

دنیا میں شاید ہی کسی ملک پرآئی ایم ایف نے اتنی کڑی شرائط لگائی ہوں جتنی پاکستان پر لگائی ہیں۔ ہم نے اس کی تمام کی تمام شرائط مان بھی لیں لیکن وہ ایک قسط جاری کرنے کے بعد دوسری قسط جاری کرنے کے لیے پھر سے نئی نئی شرائط لاگو کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کو معلوم ہے کہ پاکستانی عوام کی حالت انتہائی دگرگوں ہے اور وہ بجلی کے یہ بل ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں اور پٹرول مہنگا ہونے سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ آئی ایم ایف جس طرح بجلی، پٹرول اور گیس کے دام بڑھانے پر زور دیتا ہے‘ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو پرائیوٹائز کرنے پرزور نہیں دیتا۔ حالانکہ وہ اگر اس بات پر ڈٹ جائے تو ہمارے یہاں پیپلز پارٹی سمیت وہ سیاسی پارٹیاں جو عوام اور مزدور کے حقوق کا بہانہ کر کے اُنہیں پرائیوٹائز ہونے سے روکتی رہی ہیں اسی طرح خاموش ہو جائیں گی جیسے وہ بجلی کے بلوں پر خاموش ہیں۔ مسلم لیگ نون نے جب جب چاہا کہ خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارا حاصل کیا، جب کہ سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے دیکھی گئی۔ مزدور کے حقوق کی آڑ میں یہاں عرصہ دراز سے سیاست کی جا رہی ہے، لیکن آج وہی مزدور جب بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے تو یہ جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

اسی طرح یہ سیاسی پارٹیاں چھوٹے صوبوں کے استحصال کے نعرے لگا کر ہمارے یہاں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکاتی رہی ہیں۔ حالانکہ اگر کالاباغ جیسے ڈیمز اگر بروقت بن جاتے تو آج ہمیں سستی بجلی بھی دستیاب ہوتی اور ہم آئی پی پیز کے من مانے معاہدوں کے عذاب سے بھی دوچار نہیں ہوتے۔ اِن ڈیموں سے ہمارے یہاں وہ سیلاب بھی نہیں آتے جو اکثر ہمارے دیہاتوں کو نیست ونابود کر رہے ہوتے ہیں اور ہماری فصلوں کی تباہی نہ صرف بچ جاتی بلکہ ضرورت کے وقت اُنہیں مطلوبہ پانی بھی دستیاب ہو جاتا، مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِن ڈیموں کے خلاف کون سب سے بڑا مخالف ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان پیپلزپارٹی نے شروع کیا جس کا مقصد غریب عوام کو ہر ماہ چند ہزار روپے دے کر اُن کی دلجوئی کی جاسکے۔ 450 ارب روپے ہر سال قومی بجٹ میں اس مد میں رکھے جاتے جن سے غریب عوام کا شاید ہی گھرکا خرچہ پورا ہوتا ہو گا، لیکن یہی 450 ارب روپوں سے فیکٹریاں لگا کر غریب نوجوانوں کو اگر نوکریاں دی جاتیں تو نہ صرف وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے بلکہ ملک بھی ترقی کرتا۔ اُنہیں دو تین ہزار روپے ماہانہ دے کر بھیک کا عادی بنانے سے تو یہ بہت ہی بہتر ہوتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ بھی جانتی ہے کہ یہی تو اخراجات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ اُن کا محتاج اور غلام رہے گا اور وہ اسے جس طرح چاہیں دبا کر اپنا کام نکلواتے رہیں گے۔ شاید اسی لیے وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری پر بھی زور نہیں دیتا۔ سری لنکا چند ماہ پہلے اعلانیہ ڈیفالٹ کر گیا لیکن اس پر آئی ایم ایف نے وہ پابندیاں نہیں لگائیں جیسی ہم پر لگا رہا ہے۔ اس کی واضح اور دوٹوک وجہ یہ ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک نہیں ہے، دوسرے اس کے پاس نیوکلر پروجیکٹ بھی نہیں ہے اور تیسرے اس کے یہاں سی پیک جیسا کوئی عظیم منصوبہ بھی نہیں ہے جو عالمی طاقتوں کی نظروں میں کھٹکتا ہو۔ اسی لیے اسے قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف نے ایسی کوئی کڑی شرط نہیں لگائی جیسی وہ ہم پر لگا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ اس کا رویہ آج کل بہت سخت ہے حالانکہ سابق وزیراعظم شہبازشریف نے انھیں رام کرنے کے لیے پورا زور بھی لگا دیا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ شوکت ترین نے اپنے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کے جس معاہدے پر دستخط کر دیے تھے اس میں بھی اتنی سخت اور کڑی شرائط نہ تھیں جتنی کہ اسحاق ڈار نے قبول کر لیں۔ 

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت پٹرول پر لیوی لگانے کی شرط عائد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ 30 روپے ہو گی اور وہ بھی ہر ماہ چار روپے کی قسط کی صورت میں، مگر جب اسحاق ڈار نے معاہدے پر دستخط کر دیے تو معلوم ہوا کی یہ لیوی 50 روپے ہو گی اور قسطوں کی شکل میں بھی نہیں۔ اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ یہ لیوی 60 روپے فی لٹر ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کو اتنا خفیہ کیوں رکھا جاتا ہے کہ عوام کے پتا ہی نہیں چلتا کہ اس پر ہونے والے مظالم کی حدیں کہاں تک جاتی ہیں اور کہاں جا کر رکیں گی۔ ہمارے یہاں کے کچھ لوگ بھی شاید نہیں چاہتے کہ ہم آئی ایم ایف کی بیساکھیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ ہمارا دائمی دوست چین ہماری مدد کو ہر وقت تیار رہتا ہے لیکن ہمارے یہاں کے یہی لوگ یا ادارے امریکا بہادر کی خوشامد کی وجہ سے چین کے ساتھ مکمل روابط قائم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ دوکشتیوں میں سوار ہونے کی خواہش نے ہمیں آج اس ڈگر پر پہنچا دیا ہے کہ ہم کھل کر کسی ایک فریق کا ساتھ نبھانے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔

اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں دور دور تک ہمیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ افق پرانتہائی مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روز افزوں گرانی اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور نگرانوں کا یہ حال ہے کہ اُنہیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں، چونکہ اُنہیں عوام سے ووٹ بھی نہیں لینا ہے لہٰذا اُنہیں اس سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے کہ لوگ اُنہیں کیا کہتے ہیں۔ وہ جس مقصد سے لائے گئے ہیں وہیں اُن کا اصل ہدف اورمقصد ہے جسے پورا کر کے وہ پتلی گلی سے چپ چاپ نکل جائیں گے۔

ڈاکٹر منصور نورانی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

1 Comments