Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سنگین غداری کیس : مستقبل میں مارشل لا لگانے میں رکاوٹ ہو گی

ماہرین قانون اور آئینی ماہر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائے جانے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر دیئے گئے عدالتی فیصلوں کو تاریخی فیصلہ قرار دیے رہے ہیں۔ آئینی ماہر اور قانون دان بیرسٹر علی ظفر پرویز مشرف سے متعلق فیصلے کو پاکستانی تاریخ کا ایک اہم فیصلہ سمجھتے ہیں۔ علی ظفر کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار فیصلہ دیا گیا ہے کہ اگر آپ آئین کو معطل کرتے ہیں یا توڑتے ہیں تو آپ کے خلاف غداری کا مقدمہ ہو سکتا ہے اور آپ کو سزائے موت ہو سکتی ہے۔ خصوصی عدالت کے اس فیصلے پر سینئر قانون دان عابد حسن منٹو کا کہنا ہے کہ ججز کی طرف سے دیا گیا فیصلہ حتمی نہیں ہے اور اس کے بعد اپیلوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

عابد حسن منٹو نے کہا ہے کہ ان کے لیے یہ فیصلہ خاص ہے بھی اور نہیں بھی، کیونکہ یہ فیصلہ ایک سابق آرمی چیف کے بارے میں ہے، جو صدر بن گیا اور اس نے مارشل لا لگا دیا۔ اس لیے یہ فیصلہ اہم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ فیصلے قوانین کے مطابق ہی دیے جاتے ہیں۔ اس فیصلے سے مستقبل میں پاکستان میں مارشل لا لگانے کا راستہ بند ہو جانے سے متعلق سوال پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ماضی میں لگائے جانے والے مارشل لاز کے بعد جب پارلیمنٹ بحال ہوئی تو پارلیمنٹ نے ان کی منظوری دی۔ ان کے بقول، اگر ایسا فیصلہ ماضی میں بھی آجاتا تو صرف ایک فیصلہ ماضی میں لگائے جانے والے مارشل لاز کو روک نہیں سکتا تھا۔ 

پرویز مشرف کے مارشل لا سے متعلق بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ اس مارشل لا کو پارلیمنٹ نے کسی قسم کا تحفظ نہیں دیا اور پہلی بار عدلیہ نے بھی اسے سنگین غداری قرار دیا ہے۔ تو اب کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں مارشل لا لگائے جانے میں ایک رکاوٹ ہو گی۔ سینئر قانون دان بیرسٹر سعد رسول اس فیصلے پر اپیل سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ کی صوابدید ہو گی کہ وہ طبی بنیادوں پر پرویز مشرف کی طرف سے باقاعدہ پاور آف اٹارنی مہیا کیے جانے پر اپیل سن سکتی ہے۔ اپیل کے طریقہ کار اور پرویز مشرف کا اپیل کے لیے خود پیش ہونے سے متعلق علی ظفر کا کہنا ہے کہ طریقہ کار یہی ہے کہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ لیکن، سوال اٹھتا ہے کہ کیا پرویز مشرف کو اپیل کے لیے خود عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ کیونکہ، اپیل میں پہلے آپ کو عدالت کے سامنےاپنے آپ کو پیش کرنا پڑتا ہے اور پھر اپیل سنی جاتی ہے۔

آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے متعلق گذشتہ روز آنے والے فیصلے اور آج پرویز مشرف کو سزائے موت دیے جانے کے فیصلے پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ان دونوں فیصلوں سے یہ تاثر جائے گا کہ عدلیہ اپنی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے متعلق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف اور جنرلز سے متعلق قواعد و ضوابط کسی قانون میں نہیں۔ اس لیے اب پارلیمنٹ فیصلہ کرے۔ تاہم، اس فیصلے کے اگلے دن ہی دوسرا فیصلہ آجانا کہ ایک سابق آرمی چیف کو غداری پر سزائے موت دی گئی۔ ان دونوں فیصلوں کی بہت اہمیت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ قانون کی حاکمیت کی بات کر رہی ہے اور اس کی کوشش بھی یہی ہے کہ وہ واضح کر دے کہ قانون سے اوپر کوئی نہیں ہے اور قانون ہی سب سے اوپر ہے۔

اسی سوال کے جواب میں سعد رسول کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے حال ہی میں بہت سارے ایسے فیصلے دیے ہیں، جس کی وجہ سے عدلیہ کی اہمیت کے بارے میں کسی کو شک نہیں۔ دونوں فیصلوں سے آرمی چیف کی ایکسٹینشن اور مستقبل میں مارشل لا کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جانے کے سوال پر سعد رسول کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ آرمی چیف کی مدت اور تعیناتی سے متعلق مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔ لیکن، انہیں نہیں لگتا کہ مستقبل میں مارشل لا کا مسئلہ اس فیصلے سے حل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مارشل لا آئین کی شقوں کے مطابق، تو لگایا نہیں جاتا۔ اگر کسی نے کل کو مارشل لا لگانا ہو اور آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کچھ بھی کہہ رہے ہوں۔ اس کے باوجود مارشل لا لگتا ہے۔ ان کی وجہ سے مارشل لا نہیں لگتا۔ اسی سوال کے جواب میں علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ بڑا مشکل سوال ہے اور دونوں فیصلے اپنی جگہ موجود ہیں اور عدالتیں مستقبل میں ان فیصلوں کی پابند ہونگی۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ میں ایک قانون کے مطابق، ایک فیصلے کو مستقبل میں سپریم کورٹ کے ججز تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے فیصلے پر کافی سوالیہ نشانات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا تھا، اس دن آئین کی معطلی کی سزا، آئین میں شامل نہیں تھی اور پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ آپ کسی کو ماضی میں کیے گئے جرم پر سزا نہیں دے سکتے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ چونکہ اٹھارہویں ترمیم میں آئین کی معطلی کو سنگین غداری کے طور پر شامل کیا گیا، اور جس وقت پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا تھا، اس وقت آئین کی معطلی کی سزا آئین میں شامل نہیں تھی۔ لہذا، سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو اس وقت سزا نہیں تھی۔ پھر ایسی سزا ماضی میں کیے گئے جرم پر کس طرح دے دی گئی اور تفصیلی فیصلے میں دیکھا جائے گا کہ اس چیز کو کس طرح سے لیا گیا ہے۔

نوید نسیم

بشکریہ وائس آف امریکہ

Post a Comment

1 Comments

  1. You are a very persuasive writer. I can see this in your article. You have a way of writing compelling information that sparks much interest.
    Pakistan urdu news
    Urdu News Pakistan

    ReplyDelete