Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یورپ میں رہنے کی 'بھاری' قیمت

یورپ جانے کے خواہش مند محمد اشفاق نے ستمبر 2013 میں اپنا گھر چھوڑا تھا
اور اب وہ کراچی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد انسانی اسمگلنگ ونگ کے کراچی میں واقع دفتر میں موجود اپنے آبائی علاقے مردان جانے کے لیے اجازت کے منتظر ہیں۔ جب 23 سالہ اشفاق ایران جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا تو اس وقت وہ بہت پرجوش تھا، اس کے خیال میں قسمت کی دیوی جلد ہی اس پر مہربان ہونے والی ہے، لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم سوچتے ہیں اور اب 3 سال بعد وہ واپس اپنے گھر جانے اور اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے تاب ہے۔ اشفاق کو اس 'تبدیلی' کے لیے بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
اشفاق کے مطابق اس تمام عرصے میں اسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس کے پاؤں کے تلووں کو ربڑ سے پیٹا گیا، ان پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور انھیں پانی کے ٹینکوں میں اوپر نیچے کیا گیا۔ اشفاق کے مطابق مسلسل 27 دنوں تک الٹنا لٹکنے، جلتی ہوئی سگریٹ، گرم چھری اور آئرن راڈز سے داغے جانے، ناخنوں میں سوئیاں چبھونے، اندھیرے کمروں میں قید رہنے اور انتہائی سرد ماحوم میں رہنے جیسی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد انھیں یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ گھر جیسی اور کوئی جگہ نہیں ہے اور اپنے کیریئر کے لیے راستے کے انتخاب میں وہ بہت غلط تھے۔

اشفاق نے ہفتہ 14 جنوری کو فضل امین کے ہمراہ کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا، انھیں ایک ہفتہ قبل ترک پولیس نے استنبول کے نواح میں واقع ایک گھر سے ریسکیو کروایا تھا، جہاں یہ دونوں دیگر 4 پاکستانی نوجوانوں سمیت ایک ماہ سے زائد عرصے سے قید تھے۔ ان 6 میں سے 4 نوجوانوں کا تعلق پنجاب کے شہر گجرانوالہ اور 2 کا تعلق مردان سے ہے، جنھیں افغان انسانی اسمگلرز نے 'اغواء' کیا، ان پر بدترین تشدد کیا اور ان کی مشکلات کی ویڈیوز بنا کر ان کے اہلخانہ کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیجیں۔ اغواء کاروں نے اشفاق کی رہائی کے لیے ان کے اہلخانہ سے 50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ اشفاق نے بتایا، 'میں استنبول میں 2013 سے غیر قانونی طور پر رہ رہا تھا، میں وہاں ایک مقامی ریسٹورنٹ میں کام کرتا تھا، جہاں میری ملاقات فضل امین سے ہوئی اور ہم اچھے دوست بن گئے کیونکہ وہ بھی پاکستان میں میرے ہی علاقے سے تعلق رکھتا تھا، ہمارا رابطہ ایک افغان شخص رحیم سے ہوا جو ہمارا اچھا دوست بن گیا، ہم نے 2 سال ایک ساتھ رہتے اور کام کرتے ہوئے گزارے لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک درندہ ہے'۔

اشفاق کے مطابق انھیں اچھی طرح جاننے اور یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ ان کا تعلق مردان سے ہے، رحیم نے منصوبہ بنایا اور انھیں اغواء کر کے استنبول کے نواح میں واقع ایک گھر میں منتقل کر دیا، وہاں آکر انھیں معلوم ہوا کہ اس گھر میں مزید چار نوجوان عادل احمد، محمد ذیشان، عابد اور عثمان علی بھی موجود ہیں جو مقامی ایجنٹوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کے دوران رحیم اور اس کے گروہ کے چنگل میں پھنس گئے۔ اشفاق نے بتایا، 'ہم وہاں 27 دن تک قید رہے، اِن دنوں میں ہمیں بری طرح مارا پیٹا گیا اور 5 دن تک بھوکا رکھا جاتا رہا، ہر چھٹے دن ہمیں پانی اور روٹی کا ایک ٹکڑا دیا جاتا، تشدد کے دوران وہ ہماری ویڈیوز بناتے اور انھیں تاوان کے لیے ہمارے اہلخانہ کو بھیجا جاتا، مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح ایک ویڈیو لیک ہوئی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری رہائی کا باعث بنی'۔

نوجوانوں کے اغواء کی خبریں سوشل میڈیا پر آنے کے بعد حکام نے ان کا نوٹس لیا، جس کے بعد دفتر خارجہ نے ترک حکام سے رابطہ کیا، جنھوں نے نوجوانوں کا سراغ لگایا، چھاپہ مارا اور 9 ملزمان کو گرفتار کیا۔ اشفاق اس حوالے سے یقین سے نہیں کہہ سکتے، تاہم انھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ رحیم جیسے گینگ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی عام ہیں جہاں یورپ میں رہائش کے خواہشمند پاکستانیوں کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، 'یہ گینگ جانتے ہیں کہ پاکستانی کسی بھی طرح یورپ جانا چاہتے ہیں اور چونکہ وہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہوتے ہیں، لہذا وہ مقامی حکام سے رابطہ بھی نہیں کر سکتے، یہی وجہ ہے کہ یہ گروہ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اس طرح کی بلیک میلنگ کے ذریعے ان کے اہلخانہ سے رقم بٹورتے ہیں'۔

Post a Comment

0 Comments