Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سقوط حلب : ’یہ حلب سے آخری پیغام ہو سکتا ہے'

شام کے شہر حلب کے بیشتر حصے پر صدر بشار الاسد کی فوج نے دوبارہ کنٹرول
حاصل کر لیا ہے۔ حلب کے مشرقی حصے میں باغیوں کے قبضے والے چھوٹے سے علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں نے گذشتہ روز جذباتی انداز کے آخری پیغامات بھیجے اور شامی فوج کی گولہ باری بمباری کے درمیان ان لوگوں نے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی۔ 

گذشتہ رات ایک رضاکار لینا شامی نے ٹویٹ کیا: 'پوری دنیا کے لوگوں، سوئیں نہیں۔ آپ کچھ کر سکتے ہیں، مظاہرے کریں۔ اور اس قتل عام کو رکوائيں۔'
اپنے ویڈیو پیغام میں لینا شامی نے کہا: 'ہر کوئی جو مجھے سن سکتا ہو! محصور افراد کا حلب میں قتل عام ہو رہا ہے۔ یہ میرا آخری ویڈیو ہو سکتا ہے۔ آمر اسد کے خلاف بغاوت کرنے والے 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کے قتل عام کا خطرہ ہے۔ لوگ بمباری میں مارے جا رہے ہیں۔ ہم جس علاقے میں پھنسے ہوئے ہے یہ دو مربع میل سے بھی چھوٹا ہے۔ یہاں گرنے والا ہر بم قتل عام ہے۔ حلب کو بچاؤ انسانیت کو بچاؤ۔'

 حلب کی رہائشی لینا شامی نے صورت حال سے آگاہ کیا. حلب سے آنے والے باقی پیغامات میں لوگوں کی امید ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے: 'ہم بات چیت سے تھک گئے ہیں، تقریروں سے تھک گئے ہیں۔ کوئی ہماری نہیں سن رہا ہے۔ کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔ وہ دیکھو بیرل بم گر رہا ہے۔' یہ ویڈیو بم گرنے کی آواز کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔

منگل کی صبح زندہ بیدار ہونے والے منثر اتاکی لکھتے ہیں: 'میں اب اپنے خاص دوستوں کے ساتھ قتل عام کا سامنا کرنے کے لیے اب بھی یہاں اور اس پر باقی دنیا بالکل خاموش ہے۔ کاش ہم اپنی موت کا براہ راست منظر آپ کو دکھا سکتے۔'

ایک سات سالہ بچی بنا العابد نے اپنی ماں کی مدد سے منگل کی صبح دل کو جھنجھورنے والا پیغام ٹویٹ کیا: 'میں مشرقی حلب سے دنیا سے لائیو بات کر رہی ہوں۔ یہ میرے آخری لمحے ہیں یا تو میں زندہ بچوں یا مر جاؤں۔'   قیامت خیز منظر ہے اور نفسی نفسی کا عالم ہے. اس سے پہلے کے ٹویٹس میں بنا نے لکھا: 'آخری پیغام۔ گذشتہ رات سے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ میں بہت حیران ہوں کہ میں زندہ ہوں اور ٹویٹ کر پا رہی ہوں۔' اس کے کچھ گھنٹے بعد بنا نے لکھا: 'میرے والد زخمی ہو گئے ہیں۔ میں رو رہی ہوں۔'

حلب سے موصول ہونے والے پیغامات سے یہ واضح ہے کہ وہاں 'اب تک کی شدیدترین' بمباری ہو رہی ہے۔ مشرقی حلب میں کام کرنے والے شامی ریلیف گروپ وائٹ ہلمٹس نے لکھا: 'جہنم کا منظر ہے۔ تمام سڑکیں اور منہدم عمارتیں لاشوں سے پٹی پڑی ہیں۔'

مشرقی حلب سے ٹویٹ کرنے والے استاد عبد لکافی الحمدہ نے اسے 'قیامت کے دن' سے تعبیر کیا۔  'ہر طرف بم گر رہے ہیں۔ لوگ بھاگ رہے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں کہ کہاں جا رہے ہیں، صرف بھاگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں جا پا رہا ہے۔' انھوں نے بتایا: 'کچھ لوگ ملبے میں دبے ہیں۔ کوئی ان کی مدد نہیں کر پا رہا ہے۔ انھیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ گھر ہی ان کی قبر ہے۔' ایک لائیو ویڈیو میں انھوں نے کہا: 'اب اقوام متحدہ پر اعتماد مت کرو۔ بین الاقوامی برادری پر انحصار مت کرو۔ یہ نہ سوچو کہ انھیں نہیں معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم مارے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم عہد نو کی تاریخ کے سب سے شدید قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں۔'

 منگل کی شام کے اپنے ایک ٹویٹ میں الحمدہ نے لکھا: 'میں بس یہ چاہتا تھا کہ میری بیٹی کیلے چکھ پائے۔ اسے اچھا کھانا پسند ہے۔ اس نے کبھی ایسا کھانا نہیں کھایا۔ میں شاید اسے کبھی اچھا کھانا نہ کھلا پاؤں۔' ایک باپ نے لکھا: 'یہ آخری پیغام ہے۔ ان سب کا شکریہ جنھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے لیے دعا کی۔ اب سب ختم ہو گیا ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ ہم سب کو مار دیں گے۔' ایک اور نے ٹویٹ کیا: 'آخری پیغام۔ آپ نے جو کیا اس کے لیے شکریہ۔ ہم نے بہت سے پل ساتھ بتائے۔ یہ ایک جذباتی والد کا آخری ٹویٹ ہے۔

حلب کو الوداع۔'

Post a Comment

0 Comments