Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حلب کے لیے آسماں بھی رو رہا ہے

مشرقی حلب کے مکینوں کو اسی ہفتے راحت ملی تھی۔ وہ گذشتہ برسوں سے سفاکیت اور محاصرے کا شکار ہیں۔ آسمان پر بادلوں نے روسی اور اسد رجیم کی قاتل فضائی افواج کو تباہ کن بیرل بموں ،چھوٹے اور بڑے بموں کو برسانے سے روک دیا تھا۔ پھر تباہ شدہ شہر پر رحمت کی بارش برسی۔ اس پر ایک مکین یہ کہہ اٹھا :''حلب آنسوؤں سے رو رہا ہے''۔ یہ تو ایسے لگ رہا تھا جیسے آسمان مرتے ہوئے شہر کو آخری غسل دے رہا ہے اور مسلم روایت کے مطابق اس کی تجہیز وتکفین کے بعد تدفین کی تیاری کی جارہی ہے۔

امریکی لمحے کا خاتمہ
مشرقی حلب غیرملکی جارحین کی مزاحمت کرتا رہا تھا۔ اب اس کا دمشق غیر ملکی آقاؤں کے ہاتھوں چار سال کے بعد سقوط ہو گیا ہے۔ گذشتہ چند روز کے دوران میں ہم نے حلب میں جنگ سے متاثرہ افراد اور ان کی مدد کو آنے والوں کے نوحے سنے ہیں۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ ''جو کچھ رونما ہوا ہے ، مستقبل میں کبھی ایسا نہ ہو''۔ سوال یہ ہے کہ کیا شہریوں کے تحفظ کی ذمے داری کے تصور کا کوئی مفہوم باقی رہ گیا ہے؟ یا شہریوں کو اجتماعی ہلاکتوں ،نسلی تطہیر اور جنگی جرائم سے بچانے کے لیے کوئی مزعومہ عالمی ذمے داری بھی ہے جبکہ شامی عوام کی اکثریت ان مظالم کا شکار ہے۔ ان سوالوں کی زیادہ اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ تنازعات ،شہریوں کے خلاف مظالم ،اجتماعی ہلاکتوں ،فرقہ وارانہ اور نسلی تطہیر کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی ایسے نہیں ہوا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کی نظروں کے سامنے اور فیس بُک ، ٹویٹر یا یوٹیوب پر حقیقی وقت میں اور براہ راست رونما ہوا ہو۔ گذشتہ صدی میں بھی ہولناک اجتماعی ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن یہ سب غیر جانبدار نظروں یا کیمروں سے اوجھل ہوتا رہا تھا۔
شام میں جاری خونریزی کی حقیقی وقت اور براہ راست کوریج ہی سب سے بڑا جواز ہے کہ دنیا کو اس نئی صدی میں ہونے والے اس انسانی ساختہ المیے کی مکمل وضاحت ہی نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ یہ سب کچھ بچشم خود ملاحظہ کررہی ہے۔ یہ درست ہے کہ زیادہ تر جنگجو شامی ہیں۔ تاہم شام میں جاری لڑائی میں غیرملکی طاقتوں کی مداخلت جنگ کو بڑھاوا دینے والا ایک اہم عامل ہے۔ایران کی فوجی مداخلت ،براہ راست یا لبنان ،عراق اور اس سے ماورا فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کے ذریعے اور روس کی سریع الحرکت فورس کی مداخلت ، شام پر فوجی قبضے کی مظہر ہے۔ اسد رجیم کی بقا ان فورسز کی مرہون منت ہے۔ دوسری جانب اوباما انتظامیہ کی شام کے بارے میں مختلف اور بعض اوقات متناقض حکمت عملی گذشتہ سال روس کی مداخلت کو جانچنے میں مکمل طور پر ناکام رہی تھی۔

صدر اوباما روس کو یہ لیکچر دیتے رہے تھے کہ صدر اسد کے دفاع میں فوجی یونٹوں کو بھیجنا اس کے قومی سلامتی کے مفاد کے منافی ہے۔ انھوں نے روسیوں کو یہ بھی باور کرایا کہ ان کی معیشت کمزور ہے اور وہ خود کو ایک دلدل میں دھنسا ہوا پائیں گے۔ اس سب سے روسی شام پر مستقل طور پر قبضے پر مجبور ہوگئے۔ صدر اوباما نے گذشتہ جمعےکو اپنی آخری نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ روس کی امریکا کے مقابلے میں معیشت کمزور اور چھوٹی ہے۔ ان کی معیشت تیل ،گیس اور اسلحے کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتی ہے کہ جو کوئی خرید کرسکے۔

دوسری جانب صدر ولادی میر پوتین درست طور پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ 2016ء شام میں روس کے لیے شاندار سال رہا ہے ۔ حلب کا سقوط ہوا اور اس نے امریکا میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس نے امریکا کی سائبر سپیس میں منفرد انداز میں مداخلت کی ہے کہ وہ صدارتی انتخابات پر اثرانداز ہوا ہے اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ٹھہرے ہیں۔ آٹھ سال قبل صدر اوباما کو اپنے پیش رو صدر جارج ڈبلیو بش سے ایک غیر فعال اور ٹوٹی پھوٹی عرب دنیا ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے جانشین صدر کو ایک ایسا خطہ دے کر جا رہے ہیں جو سست روی سے منہدم ہو رہا ہے اور وہاں امریکا کا اثرو رسوخ کم اور شہرت ماند پڑ رہی ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم شاید امریکا کے مشرق وسطیٰ میں تاریخی لمحے کے خاتمے کا آغاز ملاحظہ کررہے ہیں۔

ہشام ملحم

Post a Comment

0 Comments