Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

نائن زیروسمیت ایم کیو ایم کے مرکزی دفاترسیل

کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے نجی چینل اے آر وائی کے دفتر پر حملے
اور ہنگامہ آرائی کے بعد رینجرز نے کارروائی کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اور سے ملحقہ دفاتر کو سیل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ رینجرز نے ایم کیو ایم کے تین رہنماؤں کو پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لیا ہے۔ پیر کے روز کراچی میں نجی چینل اے آر وائی کے دفتر اور قریبی دکانوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات اور فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے تھے۔
 پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے اس واقعے کے بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کے خلاف بولنے والوں کو ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہو گا۔
اس واقعے کے بعد رینجرز اہلکاروں کا ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اور اس کے اطراف میں واقع عمارتوں میں تقریباً چار گھنٹے تک آپریشن جاری رہا اور بعد میں رینجرز کے کمانڈر بریگیڈئیر خرم شہزاد نے میڈیا کو بتایا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے نائن زیرو، خورشید بیگم سیکریٹریٹ، شعبہ اطلاعات کے دفتر اور ایم پی اے ہاسٹل کو سیل کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ریاست مخالف پرنٹ اور الیکٹرانک مواد کے علاوہ اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔  بریگیڈئیر خرم شہزاد کے مطابق اس آپریشن میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سینیئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار اور رہنما خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز حکام کراچی پریس کلب کے باہر سے پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔ سندھ رینجرز کے سربراہ میجر جنرل بلال اکبر نے اے آر وائی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار سے ٹی وی چینل پر حملے اور ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔
اس کے بعد رینجرز حکام نے ٹی وی میزبان اور ایم کیو ایم کے رہنما عامر لیاقت کو بھی آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ان کے دفترسے تحویل میں لے لیا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی رہنما خواجہ 
اظہارالحسن کے ہمراہ کراچی پریس کلب پہنچے تھے، جہاں وہ میڈیا سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن رینجرز حکام نے انہیں روک دیا تھا اور بعد میں انھیں پوچھ کچھ کے لیے پانے ساتھ لے گئے۔ اس واقعے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں امن و امان کے حوالے سے ایک اعلیٰ کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں ڈی جی رینجرز اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اس سے پہلے ڈی جی رینجز میجر جنرل بلال اکبر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے انہیں کہا ہے کہ جنھوں نے بھی یہ ہنگامہ آرائی کی ہے، ان کو گرفت میں لایا جائے اور وہ ہر صورت میں پکڑیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کے خلاف پولیس اور رینجرز آپریشن کر رہی ہے اور رات تک وہ پکڑے جائیں گے۔ پولیس کے ڈی ایس پی قمر آصف کے مطابق سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے ڈیڑھ سے دو ہزار کے قریب کارکنوں نے مدینہ مال میں واقع اے آر وائی کے دفتر اور زینب مارکیٹ میں واقع دوکانوں پر پتھراؤ کیا۔ پولیس کے مطابق اس واقعے میں 15 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں ڈی ایس پی صدر کنور آصف، ایس ایچ او پیر شبیر، پولیس کانسٹیبل راشد علی، نیو ٹی وی کے ملازم نعمان اور ریحان، سماء کے سفیر احمد اور چینل 24 کے ملازم عثمان شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت عارف سعید کے نام سے کی گئی ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق اس وقت تک 12 افراد کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

 ڈی ایس پی قمر آصف کے مطابق یہ ایم کیو ایم کارکن اپنی جماعت کے قائد الطاف حسین کی تقریر سننے کے بعد مشتعل ہوگئے اور جس میں انھوں نے کہا کہ طے ہوا ہے کہ آپ اے آر وائی اور سما ٹی وی چینل کے دفتر کا رخ کر لیا۔ خیال رہے کہ پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف بھوک ہڑتال کی جا رہی تھی۔ اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پریس کلب کے قریب مدینہ شاپنگ مال کی چھٹی منزل واقع ان کے چینل کے دفتر میں ایم کیو ایم کے کارکنان نے گھس کر فائرنگ اور توڑ پھوڑ کی۔

انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا احتجاج ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ’الطاف حسین کی تقریر نشر کرنے پر پابندی کسی چینل نے نہیں بلکہ عدالت نے لگائی ہے اور اگر انھیں کوئی شکایت ہے تو پیمرا سے بات کریں۔ غریب اور بےقصور کارکنان کو نشانہ بنانا کسی طور بھی جائز نہیں کہا جا سکتا اور یہ قابلِ مذمت عمل ہے۔ سلمان اقبال نے مزید کہا کہ ان کے غریب اور بےقصور کارکنان کو نشانہ بنانا کسی طور بھی جائز نہیں کہا جا سکتا اور یہ قابلِ مذمت عمل ہے۔ دوسری جانب رینجرز کی بھاری نفری نے پریس کلب اور اس کے آس پاس کے علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پریس کلب کے باہر لگا ہوا ایم کیو ایم کا احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑ دیا ہے۔

Post a Comment

0 Comments