Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بائیس شہید ایک اذان

جب سے انگریزوں نے کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھوں معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 کے تحت فروخت کیا تھا۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہونا شروع ہو چکی تھیں ۔ ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوں کے عہد میں کشمیریوں پر مختلف اور عجیب و غریب ٹیکس لگا کر ان کا معاشی استحصال کیا جاتا تھا۔ راجہ کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا، خاص طور پر پونچھ پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد گلاب سنگھ نے جس بے دردی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کا قتل عام کرایا اور سردار سبز علی اور ملی خاں کی الٹی کھالیں اتروائیں اور سردار شمس علی خان کا سر قلم کرایا تھا سے کشمیری عوام میں مایوسی اور خوف پیدا ہو نے سے عوام بے بسی اور لاچارگی کا شکار ہو گئی ۔

1857ء میں گلاب سنگھ کی موت کے بعد اس کا بیٹا رنبیر سنگھ کشمیری عوام پر مسلط ہوا تو اس نے اپنے باپ کے ظلم و ستم کو بدستور جاری رکھا ۔ ہری سنگھ کے دور میں تو اس کا وزیراعظم استعفیٰ دیکر چلا گیا تھا، جس نے پریس کو بتایا کہ کشمیری عوام جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف پہلی مرتبہ شال بافوں نے اپریل 1865ء میں رنبیر سنگھ کے دور میں صدائے احتجاج بلند کی ، اس پر متعدد مزدوروں کو ڈوگرہ فوج نے قتل کر دیا اور سیکڑوں زخمیوں کو دریا میں پھینک دیا۔ اڑھائی درجن کے قریب لاشیں مل سکیں باقی دریا کی بے رحم موجوں کے سپر د کر دی گئیں ۔ مزدوروں نے رام باغ تک ایک احتجاجی جلوس بھی نکالا جسے آزادی کے شہیدوں کا پہلا جلوس کہا جاتا ہے۔
 قید اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس نے کشمیریو ں کے دلوں میں ڈوگرہ راج کیخلاف نفرت اور بغاوت کی آگ سلگا دی ۔ تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جہاں ایک یا دو واقعوں نے حالات کا رخ موڑ دیا اور بڑی بڑی تحاریک کا سبب بنے ، کشمیر میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ ایک واقعہ جو مسلمانوں کے اشتعال کا سبب بنا وہ 29اپریل 1931ء کو جموں کے شالا مار باغ میں مفتی محمد اسحاق کا نماز عید کے بعد خطبہ تھا۔ پولیس نے مفتی صاحب کو خطبہ پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی، جس سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی  مسلمانوں نے ریاستی پولیس کی اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں اس مداخلت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے ۔

اس کے بعد جموں میں ہندووں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی، جس نے مسلمانوں کے جذبات کومزید بھڑکا دیا۔ قرآن پاک کی توہین کے واقعہ کے سلسلے میں سری نگر میں دیواروں پر پوسٹر لگاتے ہوئے ایک نوجوان عبدالقدیر کو گرفتار کر لیا گیا، اس سے مسلمانوں کے اندر سلگتی ہوئی چنگاری کو ہوا ملی، جو شعلے میں تبدیل ہو گئی ۔ عبدالقدیر کے مقدمہ کی سماعت سیشن جج کی عدالت میں چار دن تک جاری رہی۔ سماعت کے دوران ہزاروں کشمیری احاطہ عدالت میں پہنچ جاتے، جس سے نقص امن کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے انتظامیہ نے آئندہ سماعت سری نگر کی سنٹرل جیل میں کرنے کا فیصلہ کیا اور 13 جولائی کی تاریخ مقرر کی ۔ اس دن ہزاروں کشمیری جیل کے باہر جمع ہو گئے اور مطالبہ کیا کہ سماعت کھلی جگہ پر ہونی چاہیے ۔ کچھ کشمیری نوجوان جیل کے احاطہ میں داخل ہوگئے، ان میں سے تین درجن کے قریب لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

اب وہ وقت قریب آچکا تھا جب مسلمانوں کا لہو دین کے لیے بہنے والا تھا۔ قوت ایمانی اور جذبہ آزادی سے سرشار کشمیری مسلمانوں کا جم غفیر فیصلے کا منتظر جیل کے در دیوار کے ساتھ جمع تھا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ ایک مسلمان نے جیل کی دیوار پر چڑھ کر ظہر کی اذان دینا شروع کی تو وہاں موجود انسانیت کے دشمن ڈی سی نے بغیر وارننگ کے فائر کا حکم دیدیا۔ موذن کو فائر لگا تو زمین پر گر پڑا۔ اذان جاری رکھنے کے لیے دوسرا مسلمان دیوار پر چڑھا تو اسے بھی گولی کا نشانہ بنادیا گیا۔ اس طرح اذان پر قربان ہونے والوں کی تعداد 22 ہو گئی ، سیکڑوں افراد زخمی ہوئے جو بعد میں شہید ہو گئے ۔ 13 جولائی کی قربانیوں کی یاد جذبہ آزادی کو تازہ رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔
 
طارق احسان

Post a Comment

0 Comments