Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

گبر سنگھ یا سی ایم پیکج؟

انتظامات میں نمایاں تبدیلی دکھائی دینے لگی ہے ۔لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ اب تک وہ کیسی غلاظت بھری غذائی اجناس کھا رہے تھے ۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی اس مہم جوئی نے میری اس تھیوری پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ایک فرد بھی وقت کے سانچوں میں ڈھل جانے کے بجائے وقت کے سانچے بدل دینے کا تہیہ کر لے تو شبانی سے کلیمی دو قدم ہے۔وگرنہ اس سے پہلے بھی انواع و اقسام کی اتھارٹیز ،ادارے اور محکمے موجود تھے اور ان کے ہوتے ہوئے گدھوں ،کتوں اور نہ جانے کیسے کیسے جانوروں کا گوشت فروخت ہو رہا تھا۔ہمارے ہاں بیشتر افراد اس روایتی سوچ کے اسیر ہیں کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا، یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کس کس کو ٹھیک کریں گے۔

جب بھی کوئی شخص آگے بڑھ کر کچھ کرنے لگتا ہے تو یہ اس کا تمسخر اڑاتے ہیں ،قہقہے لگاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے ،یہاں کچھ اچھا نہیں ہو سکتا۔لیکن عازم وقت اٹھتا ہے اور کہتا ہے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے تو کیا ہوا،انتہا درجے کے بگاڑ کے بعد ہی سدھار کا عمل شروع ہوتا ہے۔حالت موافق نہیں ،فضاء سازگار نہیں ،اذہان و قلوب کی سرزمین بنجر ہے تو کیا ہوا؟میرا کام تو کدال لیکر اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔اگر اجاڑ بن کی اداس رُت میں کوئی ایک پھول بھی کھل اٹھا، مایوسی کے وسیع و عریض سمندر میں کوئی ایک امید کا جزیرہ بھی دریافت ہو گیا،چاروں طرف چھائی تاریکی میں کوئی ایک چراغ بھی روشن ہو گیا تو میں سمجھوں گا میری کوششیں رائیگاں نہیں گئیں۔
یقیناً عائشہ ممتاز اور ان کے ادارے کی جدوجہد قابل ستائش ہے مگر مجھے لگتا ہے یہ دبنگ خاتون رفتہ رفتہ ناموری اور شہرت کے جنون میں مبتلاء ہوتی جا رہی ہیں ۔اگر ان اقدامات کو ٹھوس قوانین ،واضح قواعد و ضوابط اور شفافیت سے مربوط نہ کیا گیا تو نہ صرف ان کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور مقصد فوت ہو جائے گا بلکہ فوڈ انڈسٹری ٹھیک ہونے کے بجائے ٹھپ ہو جائے گی۔مثال کے طور پر جب کسی جگہ چھاپہ مارا جاتا ہے تو سزا سنانے کا کوئی نہ کوئی سبب نکال ہی لیا جاتا ہے باالکل ایسے جیسے پولیس والے جب ناکے پر موٹر سائیکل سوار کو روک لیتے ہیں تو اس کی گاڑی بند کرنے کا جواز ڈھونڈ ہی لیتے ہیں چاہے وہ جواز اس نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو کہ ڈبل سواری پر پابندی ختم ہو گئی ہے اور تم ابھی بھی اکیلے جا رہے ہو۔کوئی بھی کارروائی کرتے وقت کیمرہ ضرور ساتھ لیکر جائیں اور تمام مراحل کی ریکارڈنگ کریں لیکن اسے نشر تب تک نہ کریں جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ۔

مثال کے طور پر آپ نے کسی مشروب ساز کمپنی کے جوس کا نمونہ لیا اور لیبارٹری بھیج دیا مگر ساتھ ہی اس کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیں تو اس کی کاروباری ساکھ تو تباہ ہو گئی چاہے بعد میں فیصلہ اس کے حق میں ہی کیوں نہ آجائے ۔عائشہ ممتاز اور ان کی ٹیم کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ ان کا مقصد جرمانے کرنا اور ہوٹل سیل کرنا نہیں بلکہ معیاری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔الل ٹپ ،اچانک اور بے ہنگم کارروائی کا آغاز کرنے کے بجائے اس کا طریقہ کار یہ ہونا چاہئے تھا کہ پہلے مرحلے پر فوڈ انڈسٹری کے مختلف شعبہ جات کیلئے الگ الگ ضابطہ اخلاق بنایا جاتا ۔اس کے بعد متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کیساتھ نشست کا اہتمام کر کے بتایا جاتا کہ نئے قواعد و ضوابط کے مطابق آپ کو یہ اقدامات کرنا ہونگے ،اگر آپ نہیں کریں گے تو قانون حرکت میں آئے گا۔

مثال کے طور پر یہ ابہام دور کیا جاتا کہ اگر کسی کینٹین پر رکھا گیا جوس غیر معیاری ہے تو اس کی سز اکسے دی جائے گی ؟اس دکاندار کو یا پھر جوس بنانے والی متعلقہ کمپنی کو؟اور کمپنی کو بتایا جاتا کہ اگر آپ کا برانڈ مارکیٹ میں موجود ہے تو اس کیلئے کن کن اداروں سے لائسنس،اجازت نامہ یا سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہے۔اگر ایک شخص کسی بازار میں چھوٹی سی دکان پر گوشت بیچتا ہے تو اسے کیا تدابیر اختیار کرنا ہونگی؟جہاں تک ان اشیاء کے معیار کا تعلق ہے تو ایک طرف آپ نرخ نامہ مقرر کرتے وقت انتہائی ناقص درجے کی شے کا ریٹ مقرر کرتے ہیں اور پھر توقع یہ کرتے ہیں کہ اس ریٹ پر بہترین کوالٹی دستیاب ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔

ریٹ مقرر کرنے والوں نے جب خود گوشت خریدنا ہوتا ہے تو وہ کسی میٹ چین سے مہنگے داموں خریدتے ہیں مگر بازار میں بیٹھے عام دکاندار سے یہ توقع کرتے ہیں کہ اسی معیار کا گوشت وہ سرکاری نرخ نامہ کے مطابق بیچے تو یہ کیسے ممکن ہے؟اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ، الجھنیں اور سولات موجود ہیں جنہیں سلجھائے بغیر اندھا دھند کاروائی شروع کر دی گئی ۔بہتر یہ ہوتا کہ رولز آف بزنس طے ہوجانے کے بعد چند دن مہلت دی جاتی ۔پھر پہلے مرحلے میں کہیں عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں تنبیہ کی جاتی ،دوسرے مرحلے میں جرمانہ کیا جاتا ،تیسرے مرحلے میں مقفل کیا جاتا اور آخری مرحلے میں لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ۔لیکن یہاں آتے ہی مار دھاڑ شروع کر دی گئی اور طرفہ تماشا یہ کہ فیس بک پیج بنا کر تصویریں اس پر شیئر ہونے لگیں ۔

ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ آیا یہ کوئی وقتی اور مصنوعی نوعیت کی مہم جوئی ہے یا پھر گبر سنگھ کی طرح یہ کردار بھی برسوں یا د رہے گا ۔ا س سے قبل نسیم صادق کی فرض شناسی کے چرچے بھی اسی انداز میں ہوئے تھے مگر وہ ملتان سے واپس آئے تو تخت لاہور کی راہداریوں میں کھو گئے ۔میرے ایک دوست سول سرونٹ کا خیال ہے کہ نسیم صادق ہوں یا عائشہ ممتاز ،یہ سب ’’سی ایم پیکج ‘‘ ہیں جس طرح ہر پیکج کی کوئی نہ کوئی مدت ہوتی ہے اسی طرح یہ پیکج بھی اپنا دورانیہ پورا ہونے پر ختم ہو جائے گا ۔

محمد بلال غوری

بہ شکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments