Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سیلاب غریب کو کنگال کردیتا ہے

پاکستان کے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے کے ساتھ ساتھ بائیں اور دائیں کنارے پر کچے میں آباد لوگوں کے انخلا میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اس وقت تک 18 سو سے زائد گاؤں زیر آب آچکے ہیں جن کے رہائشی چار لاکھ سے زائد لوگوں کو محفوظ مقامات منتقل کیا گیا ہے۔

سب سے زیادہ انخلا لاڑکانہ کے کچے کے علاقے سے کیا گیا ہے، جہاں باقرانی اور رتودیرو سے پونے دو لاکھ کے قریب لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے ہیں۔ دوسرے نمبر پر کشمور ہے جہاں سے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کا انخلا ہوا ہے۔
صوبائی ڈزاسٹر مئینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 218 مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں جبکہ 350,445 ایکڑ پر کھڑی فصلیں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوگئی اور 7272گھر مکمل یا نصف تباہ ہوچکے ہیں۔
صوبائی حکومت کی تمام تر توجہ حفاظتی بندوں کی نگرانی پر نظر آتی ہے، شاید یہ ہی وجہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن کیپموں میں آنے والوں کی تعداد کم ہے۔ صوبائی ڈزاسٹر مئینمنٹ اتھارٹی کے مطابق تقریباً چار لاکھ میں سے صرف 70 ہزار لوگ کیمپوں میں موجود ہیں۔

سنہ 2010 کے سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر جیکب آباد میں گذشتہ متاثرین کے علاوہ حالیہ متاثرین سے بھی ملاقات ہوئی، ان متاثرین نے گڑھی خیرو گرلز سیکنڈری سکول میں پڑاؤ ڈال رکھا تھا۔

رحمت اللہ بروہی نامی متاثر نے بتایا کہ ان کا گاؤں سیف اللہ کینال، بیگاری اور سیر واہ کینال کے درمیان ہے جن میں سے ہر بار کسی نہ کسی کو شگاف پڑ جاتا ہے اس بار انھیں سیف اللہ کینال نے بے گھر کیا ہے۔
’رات کو ایک بجے سیف اللہ کینال کو شگاف پڑ گیا اور پورے گاؤں پانی کی لپیٹ میں آگیا وہ بغیر حکومتی مدد کے بچوں کو لے کر یہاں پہنچے ہیں۔ اب حکام کہہ رہے ہیں کہ سکول کھلنے والے ہیں یہاں سے چلے جاؤں۔ گھروں میں تو تین سے چار فٹ پانی ہے اب اس سکول سے نکل کر کہاں جائیں گے۔
گرلز سیکنڈری سکول میں مقیم ان خاندانوں کے 400 افراد کو ٹاؤن کمیٹی کی جانب سے دو دیگ چاول فراہم کیے گئے تھے۔ سیف اللہ کینال کا پانی ان کی دہان کی فصل کو ڈبو چکا ہے۔
ایک نوجوان سعد الرحمان نے بتایا کہ سنہ 2010 کے سیلاب میں کافی نقصان ہوا تھا ایک سال تک پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے کوئی فصل نہیں ہوسکی تھی اسی طرح بعد کے اگلے سال شدید بارش ہوئی جس کے باعث بھی فصل نہیں ہوسکی اور اس اس بار دوبارہ زمین زیر آب آگئی ہے۔
’جب ایسی صورتحال ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ ایک سال کے لیے پیچھے چلے جاتے ہیں کیونکہ جو کاشت کرتے ہیں اس کی فصل میں سے ایک سال کا اناج رکھ لیتے ہیں۔ جب سیلاب آجائے تو فصل نہیں ہوتی اور وہ کنگال ہوجاتے ہیں یہاں صرف وڈیرے کے پاس ہی اتنا پیسہ ہوتا ہے غریب کے پاس نہیں۔‘

بار بار گاؤں زیر آب آنے کے باوجود فقیر محمد گاؤں کے رہائشی کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کو تیار نہیں۔ عبدالکریم نامی متاثر کا کہنا تھا کہ وہ غریب لوگ ہیں پیسے ہوں تو کہیں دوسری جگہ یا شہر جاکر رہیں مجبوری میں یہاں رہتے ہیں ۔’ہم تو روز کماتے اور روز کھانے والے ہیں۔

گڑہی خیرو شہر سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ شہداد کوٹ روڈ ایک ٹرک پر سوار کچھ لوگ شہداد کوٹ کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے۔ ٹرک پر لوگوں اور بکسوں کے علاوہ ریڑھی اور موٹر سائیکل بھی موجود تھی۔
اگلی نشست پر موجود محمد صادق نے بتایا کہ وہ اوستا محمد کے رہائشی ہیں اور جب انھوں نے سنا کہ سیلاب آرہا ہے، اسی وجہ سے شہدادپور جا رہے ہیں، اب وہاں چھ ماہ رہے ہیں یا 12 ماہ معلوم نہیں۔
’جب تک پانی نکل نہیں جاتا وہاں رہیں گے کیونکہ بلوچستان حکومت تو کوئی مدد نہیں کر رہی ہر آدمی پریشان ہیں اسی لیے ہم تو پہلے نکل آئے ہیں۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments