Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

نو 9 ؍اگست 1945ء کو ناگا ساکی میں کیا ہوا؟......

ستر سال پہلے 9 اگست 1945ء کو لاکھوں انسانی زندگیاں تلف کرنے والے دو ایٹم بموں کے ساتھ عالمی سیاست میں منفرد اور بے مثال اینٹری ڈالنے والے ’’امریکہ بہادر‘‘ نے اپنے اس انسانیت سوز کارنامے کے بعض پہلوئوں کی بھیانک تفصیلات کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی چنانچہ عالمی رائے عامہ اس امریکی کارنامے کے صحیح حجم کا پورا اندازہ نہیں لگا سکی تھی۔ یہ حقائق اب ’’ناگا ساکی ایٹمی جنگ کے بعد کی زندگی‘‘ کے عنوان سے 389 صفحات کی باتصویر سوزان سائوتھ ہارڈ کی کتاب کے ذریعے منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
جاپان کے شہر ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے بعد دوسرا ایٹم بم آئرش امریکی پائلٹ نے ناگا ساکی میں ایشیا کے سب سے بڑے کیتھولک گرجے کے اوپر گرایا تھا اور ایک ہی دن میں وہاں کی ستر ہزار انسانی زندگیاں تلف کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور اس کے بعد تابکاری اثرات کے تحت اس سے بھی زیادہ لوگ مسلسل اور متواتر مرتے چلے گئے اور ایٹم بم کے اثرات نے مستقبل کی شکلیں بھی مسخ کرنا شروع کر دیں تھیں۔

سوزان کی پتھر جیسے سخت دلوں کو بھی دہلا دینے والی تفصیلات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان بدنصیب جاپانیوں کو دیکھنے کے لئے کیا صدر گاجو اس حملے میں ایک دم ہلاک ہونے سے بچ گئے تھے۔ ’’ایک عورت نے چندھیا دینے والی چمک سے آنکھوں کو بچانے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس کے چہرے اور ہاتھ کا گوشت لٹک کر گر گیا۔‘‘ سینکڑوں ہزاروں لوگ مدد کے لئے چلا رہے تھے ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ان کے جسم کے اعضاء جسم سے الگ کیوں ہو رہے ہیں۔‘‘ ’’گوشت پگھل کر الگ کیوں ہو رہا ہے۔‘‘ بیشتر لوگ ننگے تھے مگر عورت اور مرد کی پہچان مٹ گئی تھی ’’کچھ لوگوں کی آنکھیں ان کے چہروں کے باہر لٹک رہی تھیں اور آنکھوں کےحلقے خالی تھے۔‘‘مین ہٹن پراجیکٹ کے ڈائریکٹر جنرل جس نے ایٹم بم کی تیاری میں حصہ لیا تھا امریکی سینٹ کے سامنے اقرار کیا تھا کہ تابکاری اثرات کے ذریعے موت بہت خاموشی سے بغیر کسی تکلیف کے ہو گی۔
مرنے کا یہ بہترین طریقہ ہو گا۔ اس ایٹمی حملے سے بچ رہنے والے بیشتر لوگ بھی جلد ہی اپنے مر جانے والے عزیزوں کے ساتھ جا ملے تھے اور پوری دنیا کو پتہ چل چکا تھا کہ عالمی سیاست میں ایک ایسی طاقت داخل ہو چکی ہے جو کم از کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ مخلوق خدا کو تلف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہ طاقت اپنی معاشی اور اقتصادی پالیسی سے بھی کم از کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ مخلوق خدا کو غربت کی آخری لکیر اور موت کی پہلی لکیر کے درمیانی عرصے میں دھکیل سکتی ہے۔بہت سارے اور بے شمار لوگوں نے ایٹم بم کے حملے کے بعد کے حالات کی اذیت سے گزرنے کے بعد موت کی عافیت کو قبول کر لیا۔
تابکاری اثرات کے تحت ان کے بال گرنے لگے جسم پر دھبے نمودار ہو گئے۔ جسموں کے گل سڑ جانے والے اعضاء سے بدبو آنے لگی جو ناقابل برداشت تھی۔ ایٹمی حملے کے بعد موت کی پہلی لہر گزر جانے کے بعد دوسری لہری اور پھر تیسری لہر آئی۔ زندگی کی اذیت سے گزرنے والے لوگوں کے لئے ان کے عزیز رشتہ دار موت کی دعائیں مانگنے لگے اور اڑھائی لاکھ بے گناہوں کی موت کے ساتھ ’’ایٹمی دور‘‘ شروع ہوا۔ 

لازم آتا ہے کہ سوزان کی اس کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجیم چھاپے جائیں تاکہ عالمی رائے عامہ کو معلوم ہو سکے کہ ایٹمی اسلحہ تیار کرنے والوں کو انسانیت کا محسن قرار دینے والوں کو بھی اس ’’احسان‘‘ کا محل وقوع اور رقبہ معلوم ہو سکے اور اب بھی پتہ چل جائے کہ دنیا کی نام نہاد بڑی طاقتوں کے اسلحہ خانوں میں اتنے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جو شمسی کائنات میں انسانی زندگی کے واحد گہوارے اس دنیا کو راکھ کا ڈھیر بنا کر کائنات کے خلاء میں بکھیر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس ایک غلط فیصلے کی دیر ہے سب کچھ ختم ہو سکتا ہے اور اس سب کچھ میں انسانیت کے نام نہاد محسن بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

منو بھائی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Post a Comment

0 Comments