Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انجام دو گز زمین، خواہش دو ہزار مربع زمین

میں سرخیاں پڑھتی ہوں اور انکی سیاہیوں پر غور کرتی ہوں، بیانات دیکھئے اور انکے پس پردہ کہانیاں دیکھئے۔ دعوے سنئے اور بلندوبانگ دعوﺅں کی حقیقت جانئے۔ یقین جانئے! حکمرانوں کے جھوٹ اور ان کی دیدہ دلیری پر صدمہ آشنا حیرتیں ستاتی ہیں۔ آدمی کو کھانے کیلئے دو وقت دو روٹی‘ تن پر دو کپڑے‘ رہنے کو دو کمرے کافی ہوتے ہیں۔ نہ آدمی ایک وقت میں سو روٹیاں کھا سکتا ہے، نہ اعلیٰ اور انواع واقسام کے من وسلویٰ سارے کے سارے کھا سکتا ہے، نہ ہی دو سو جوڑے زیب تن کر سکتا، نہ دوسو ایکڑ محل کے دو سو کمروں میں بیک وقت سو سکتا۔ انسان اس کائنات کی سب سے کمزور مخلوق ہے۔ 

ابھی شوگر، بلڈپریشر، کینسر یا ہارٹ اٹیک ہو جائے تو مرنے میں چند ثانیے بھی نہیں لگتے۔ نرخرے پر ذرا سا انگوٹھا دبا کر رکھیں تو وہیں دم نکل جاتا ہے اور اللہ اللہ اتنا تکبر، اتنی اکڑ، اتنا طنطنہ.... کہ خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے، کاش ! کبھی ہمارے حکمران حضرت عمر فاروقؓ کی طرح رات کو چھوڑیں، دن میں انکے گھروں اور دلوں میں جھانک کر دیکھیں کہ پاکستانی قوم کس اذیت، مصیبت اور ملامت کی زندگی کاٹ رہی ہے۔ نہ بجلی ہے، نہ پانی ہے نہ کھانے کو کچھ ہے نہ کمانے کیلئے کچھ ہے، نہ انصاف ہے، نہ روزگار، نہ سکون ہے نہ تحفظ، نہ قانون ہے نہ مساوات ہے، نہ جمہوریت ہے اور نہ مارشل لاءہے.... بس ایک پل صراط ہے جس پر ایک ڈیڑھ کروڑ کے علاوہ پوری پاکستانی قوم اپنے شل اعصاب کے ساتھ دن رات گزار رہی ہے۔
 بس کٹھن راستہ ہی راستہ ہے۔ منزل کے کوئی آثار نہیں، بہتری کی توقع نہیں، اچھے کے آثار نہیں۔ دو سال سے غیر ملکی شاہانہ دوروں کی تصویریں اور خبریں دل جلانے کو ملتی ہیں، روز معاہدوں کے نام پر صحافیوں، اینکروں، کیمرہ مینوں کو بلا کر پروجیکشن ہوتی ہے۔ اربوں روپوں کے پراجیکٹس کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں، پاور پلانٹس کے نام رکھے جاتے ہیں لیکن جا کر تحقیق کیجئے تو دھول مٹی اڑ رہی ہوتی ہے۔

ہر پراجیکٹ پورا کرنے کی میعاد تین سے چار سال مقرر کی جاتی ہے تاکہ نئے الیکشن تک مزے کئے جا سکیں اور کوئی سوال نہ اٹھا سکے، کوئی نکتہ چینی نہ کر سکے، کوئی تنقید کی سولی پر نہ لٹکا سکے۔ اس کام کیلئے بھی ہمارے بہت سے صحافی اور اینکر خریدے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے آج صحافی برادری بھی طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے۔ تین بڑے طبقات میں ایک وہ صحافی برادری ہے جو حکمرانوں کو پیاری ہے اور ہر انٹرویو، خبر، کالم، ایڈیٹوریل، ٹاک شو میں حکومت کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتی ہے، یہ صحافی برادری کل تک غریب، مفلوک الحال یا لوئر مڈل کلاس تھی، آج یہ طبقہ امیر ترین ہو چکا ہے، انکے اثاثے بھی پاکستان سے بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں اور ان صحافیوں کو بڑے بڑے عہدے تفویض کر رکھے ہیں، انکے بھائی، بیٹے، بیٹیاں، بہنیں، بیوی اکثر کو کہاں کہاں نوازا گیا ہے، یہ ایک طویل اور پراسرار کہانی ہے، دوسرا طبقہ صحافیوں کا وہ ہے جو مصلحت سے چلتا ہے کہ کبھی ضرورت کیلئے ضمیر گروی رکھ دیا اور کبھی حق کا کلمہ ادا کردیا، یہ صحافیوں کا مڈل کلاس طبقہ کہلاتا ہے، تیسرا طبقہ عموماً سفید پوش ہی رہتا ہے، یہ لوگ سچے کھرے ایماندار صحافی ہیں جو کسی حالت میں نہیں جھکتے اور نہ حکمرانوں کی طاقت سے ڈرتے، نہ ان کی چمک سے دبتے۔
یہ حق اور سچ کے پرستار ہوتے ہیں لیکن انکے مالی حالات دگرگوں اور نوکریاں ہر وقت داﺅ پر لگی رہتی ہیں۔ صحافیوں میں اس تفرقے بازی کے بل بوتے پر آج کے حکمران عیش کررہے ہیں لیکن کانچ کا پل فولاد کے جوتوں سے پار نہیں کیا جاتا۔ نواز شریف کہتے ہیں ہم اتنے میگا واٹ بجلی چار سالوں میں پیدا کرلیں گے۔ ہم کرپشن ختم کردینگے۔ اسحاق ڈار روزانہ کہتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے، چوہدری نثار کہتے ہیں کہ ہم نے سکیورٹی بہتر بنا دی ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ہم بجلی اور توانائی کے ذرائع بحال کررہے ہیں۔ آئندہ چند سالوں میں یہاں بجلی کی فراوانی ہوگی۔ شہباز شریف ہر دوسرے دن کہتے ہیں کہ 25 لاکھ نوجوانوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔ 
جتنی بار وہ یہ بیان ہر دوسرے تیسرے دن داغتے ہیں۔ اس حساب سے تو اب تک پاکستان کے 20 کروڑ لوگوں کو روزگار مل چکا ہوتا، صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک کسی نوجوان کو جاب نہیں ملی ہے۔ جنہیں جانب مل جاتی ہے وہ میرٹ پر نہیں ہوتی۔ سرکاری سطح پر عجیب وغریب بلکہ محیرالعقول قسم کی شرائط رکھی جاتی ہیں، لوگوں کو سالوں جوتے گھسنے اور سینکڑوں درخواستوں کے بعد اگر کسی جاب کی امید ہو جائے تو وہ عمر اور سرکاری نوکری کے تجربے کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے۔

حیرت ہے کہ حکومت میں اتنے اتنے موٹے دماغ کے لوگ بیٹھے ہیں کہ ایک طرف روزانہ کہتے ہیں کہ جی حکومت لاکھوں یا ہزاروں لوگوں کی آسامی کیسے پر کرے، حکومت ہر سال بمشکل ڈیڑھ دو ہزار آسامیاں پر کرتی ہے جبکہ فارغ التحصیل افراد کی تعداد ہر سال تین چار لاکھ ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو سالوں گزر جانے کے باوجود نوکریاں نہیں ملتیں۔ مجبوراً یہ اپنی اعلیٰ تعلیم اور تجربے سے کم مرتبے والی نوکریاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بھی اللہ بھلا کرے پرائیویٹ سیکٹر کا .... جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو نوکریاں میسر آجاتی ہیں مگر پرائیویٹ سیکٹر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد سے دن رات کام لیتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ 
انہیں کم سے کم تنخواہ دی جاتی ہے، ریگولر بنیادوں پر کم سے کم تعینات کیا جاتا ہے اور ہر مد میں تنخواہ سے کٹوتی کر کے مالی اور اعصابی استحصال کیا جاتا ہے، اگر نوکری ملنے کے بعد تنخواہ بھی وقت پر اور پوری نہ ملے تو آپ سبھی اس ”کرب“ کا اندازہ کر سکتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت تیرہ کروڑ سے زائد افراد روزانہ یہ زہر پینے پر مجبور ہیں۔

پاکستان میں دہشتگردی کی ایک بڑی وجہ بیروزگاری ہے، بیروزگاری ایک ایسا معاشرتی استحصال ہے جس کی اذیت کا اندازہ حکمران اور بیوروکریٹ یا بزنس مین طبقہ کبھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ”بھوک“ اور ”بے عزتی“ یا ”بے یقینی“ کی شدت سے آگاہ نہیں ہوتے۔ پاکستان میں وہ لوگ بھی زندہ ہیں جن کے آباﺅ اجداد نے یہ ملک بنایا۔ وزیراعلیٰ روز فیتے کاٹتے اور مطلب کے لوگوں میں ایکڑوں کنالوں زمین بانٹتے ہیں مگر ایک بیابان جنگل نما جگہ پر تین تین مرلے کے پلاٹ دینے کیلئے انکے پاس ٹائم نہیں، اس عرصے میں کئی تحریک پاکستان کے کارکن انتظار کرتے کرتے مر گئے مگر انہیں تین مرلے کا پلاٹ نصیب نہ ہوا....!!

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت

Post a Comment

0 Comments