Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

الخدمت فاﺅنڈیشن خدمت کی درخشندہ مثال

بعض مرتبہ آپ ایسے لوگوں سے ملتے ہیں کہ بے اختیار زبان پر یہ مصرع یاد آ جاتا ہے ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“ اللہ کی زمین کبھی خیر سے خالی نہیں رہی اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو نیک کاموں کیلئے چن لئے جاتے ہیں۔ یقینا اس میں کچھ بڑوں کی دعائیں اور کچھ اپنی ادائیں ہوتی ہیں جو قدرت کو بھا جاتی ہیں۔ مجھے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن قیصر شریف کا فون آیا کہ الخدمت فاﺅنڈیشن کی تقریب میں شرکت کرنا ہے۔ یہ نوجوان انتہائی باادب اور باصلاحیت ہے۔ میں انکار نہ کرسکا۔
 تقریب کے روز میں نے اخلاقاً اسے فون کیا کہ مجھے چونکہ کل کیلئے کالم بھیجنا ہے اس لئے آنے سے معذور ہوں۔ اس نے یوں اصرار کیا کہ بن جائے چارہ نہ تھا۔ مگر جب میں پروگرام میں پہنچا تو دنگ رہ گیا اور خیال آیا کہ اگر میں نہ آتا تو اس سعادت سے محروم رہ جاتا۔ یہ محفل یتیم بچوں کو احساس محبت اور یگانگت سے سرشا ر کرنے کی سعی جمیلہ تھی۔

ُبنیادی طور پر یہ فنڈز ریزنگ پروگرام تھا۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ ایک وسیع سٹیج اور اس کے عقب میں جہازی سائز فلیکس جس پر محبوب شاعر امجد اسلام امجد کی پورٹریٹ تھی اور ساتھ لکھا ہوا تھا ”ایک شام امجد اسلام امجد کے ساتھ‘ باہمت بچوں کے نام“۔ یہ باہمت بچے اصل میں وہ یتیم نونہال ہیں جن کی کفالت کا بیڑا ”الخدمت فاﺅنڈیشن“ نے اٹھایا ہے۔ فلیکس کے ٹاپ پر لکھا تھا ”کفالت یتیم سے، جنت کا حصول بھی…. رفاقت رسول بھی“۔ میرے دل میں آئی کہ اس میں تصرف کرکے پڑھوں کہ ”نجات کا حصول بھی، رفاقت رسول بھی“۔ شاعر ہوں، وزن کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اصل میں یہ سلوگن حدیث شریف سے اخذ کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اس طرح قریب ہوں گے، یہ کہتے ہوئے آپ نے شہادت اور بیچ کی انگلی کو اکٹھا کیا تھا۔
اختر عباس جو کبھی ”پھول“ میں رنگ جمایا کرتا تھا، اب اردو ڈائجسٹ میں ہے۔ نظامت کررہا تھا اور اسے بات کرنا تو آتی ہے۔ اس نے تلاوت کلام پاک اور نعت شریف کے بعد امجد اسلام امجد کو سٹیج پر بلایا۔ تعارف تو خیر کیا کروانا تھا کہ بقول فراز ”آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے“۔ انہوں نے اپنی خوبصورت نظموں سے خوب داد پائی۔ ان کی محبت کہ انہوں نے ایک نظم سے پیشتر بتایا کہ جہاں یعنی گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز میں وہ پڑھایا کرتے تھے وہاں سعدا للہ شاہ پڑھا کرتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں شمع تاثیر مشاعرے کے انچارج امجد صاحب تھے اور اب کے میں ہوں۔ دل تو چاہتا ہے کہ ”کمرہ امتحان“ نظم میں نقل کردیتا مگر کالم تو کالم ہوتا ہے، امجد صاحب کچھ بھی نہ کہتے، صرف یہ شعر 
کہہ دیتے تو وہ امر ہوجاتے
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
ان کا ایک اور شعر دیکھئے
وہ ترے نصیب کی با رشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا

مجھے یوں لگا کہ الخدمت فاﺅنڈیشن نے امجد صاحب کو وہی جگہ دی جو سندس فاﺅنڈیشن نے منو بھائی کو دی۔
اس پروگرام میں سب سے زیادہ سرشار میں ان نوجوانان رعنا کو دیکھ کر ہوا جو شہد کی مکھیوں کی طرح ادھر ادھر کام میں مصروف تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ نوجوانوں کی اتنی زیادہ تعداد ایک فلاحی کام میں، میں نے نہیں دیکھی۔ یہ تربیت یافتہ نوجوان اس قوم کا سرمایہ ہیں اور اس کا کریڈٹ بہرصورت پچھلی صدی کے عظیم مفکر ابوالاعلیٰ مولانا مودودی کو جاتا ہے۔ نسل در نسل دین کا فہم جاری و ساری ہے اور تربیت بھی۔
سب سے پہلے الخدمت لاہور کے صدر انس واحدی نے تقریر کی اور لوگوں کو دعوت دی کہ وہ نہ صرف اعانت کریں بلکہ الخدمت کا خود حصہ بنیں۔ انہوں نے مدر ٹریسا کا حوالہ دیا کہ جب بھارتی کرکٹر دس ہزار روپے کا چندہ مدر ٹریسا کو دینے آیا تووہ ایک مہلک مرض میں مبتلا مریض کی پٹیاں کررہی تھی۔ سدھو وہاں ٹھہر نہ سکا۔ باہر آ کر جب اس کی مدر ٹریسا سے ملاقات ہوئی تو اس نے چندہ دینا چاہا تو مدر ٹریسا نے اسے کہا کہ کیا تم مریضوں کے زخموں پر پٹیاں کرسکتے ہو۔ غرض و غایت یہ تھی کہ الخدمت کے کو آپ اپنا وقت دیں۔ اس کے بعد الخدمت کے مرکزی سیکرٹری محمد عبدالشکور سٹیج پر آئے اور حاضرین سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے الخدمت کے کارہائے نمایاں گنوائے تو سب دنگ رہ گئے۔ میں سمجھتا ہوں اصل بات آپ کی Credibility کی ہوتی ہے کہ لوگ آپ پر کس درجہ اعتبار کرتے ہیں جب کوئی سراپا خلوص ہو، خدمت کے جذبے سے معمور ہو اور اس کا دل زبان پر آ جائے تو لوگ اس پر کیونکر نہ یقین کریں گے۔ 

ایسا منظر میں نے بھی نہیں دیکھا تھا کہ محمد عبدالشکور نے جب لوگوں سے اپیل کی کہ اس ہال سے 5 لوگ تو ایسے ضرور کھڑے ہوجائیں گے جو 5,5 لاکھ روپے کا اعلان کریں اور کہا کہ جو بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا اسے بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی اجر ملے گا۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا، 5 کیا وہاں تو دس لاکھ والے بھی اٹھ کھڑے ہوئے، بارش کا پہلا قطرہ کیا! وہاں تو موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ بہت اللہ والے ہیں جو دینا چاہتے ہیں مگر انہیں کوئی اعتبار بھی تو دلائے۔ زرداری صاحب تو سیلاب زدگان کیلئے آنے والی کھجوریں بھی بیچ گئے تھے اور قرض اتارو ملک سنوارو میں کون سنورا تھا۔ میں نے انہی کیلئے ایک شعر کہا تھا

دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو
جس کیلئے گھر بار لٹایا جاسکتا تھا

وہیں پی ٹی آئی خواتین ونگ کی تنزیلا عمران خان نے لاہور سکالرز سکول سسٹم کیلئے 5 بچوں کی کفالت کا اعلان کیا اور کہا کہ  میں بھی وہ 5 یتیم بچوں کی ذمہ داری اٹھائیں گی۔ ساتھ بیٹھی نورین حمید نے بھی اپنے سکول کیلئے 5 یتیم بچوں کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس کے بعد تو کچھ نہ پوچھئے۔ سینکڑوں بچوں کا مسئلہ حل ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ ارشاد احمد عارف بھی کارڈ بھر رہے تھے۔ ساتھ ہی خوبرو نجم ولی خان، جاوید شیدا، رﺅف طاہر اور دوسرے دوست بیٹھے تھے جن میں ایاز خان، لطیف چوہدری، ہارون رشید، حبیب اکرم، غریدہ فاروقی، امیر العظیم، وکیل انجم، صوفیہ مرزا، عالیہ، عبدالحمید ساجد اور فاروق بھٹی نمایاں تھے۔

 دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا کرکٹر محمد عرفان بھی آگیا تو ماشاءاللہ اس کے سامنے سب چھوٹے چھوٹے لگنے لگے۔ میں نے اس کی انجری کے بارے میں دریافت کیا تو مسکرایا کہ اب الحمدللہ وہ سری لنکا جارہا ہے۔ ہمارے گروپ ایڈیٹر عطاءالرحمن بھی آغاز سے آخر تک لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس خیمہ ہال میں کولنگ بہت زیادہ تھی اور موسم گرما کے ملبوس اسے روکنے کیلئے ناکافی تھے۔ الخدمت کے جنرل سیکرٹری شاہد محمود بھی مصروف نظر آرہے تھے۔

محمد عبدالشکور نے یہ بھی اعلان کیا کہ الخدمت فاﺅنڈیشن یتیم بچوں کی کفالت کے علاوہ اور بہت سے کام بھی کررہی ہے۔ رواں سال وہ ”صاف پانی“ کے سال کے طور پر منائیں گے۔ انہوں نے مواخات پروگرام کے تحت ٹاﺅن شپ لاہور میں 50 محنت کشوں کو 12 لاکھ روپے کا بلاسود قرض تقسیم کیا۔ ہیلتھ پروگرام کے تحت 3 ایمبولینسیں گلگت بلتستان ریجن کے حوالے کیں۔ 5 کروڑ 30 لاکھ روپے کی لاگت سے تھرپارکر میں 360 صاف پانی کے نئے منصوبے مکمل کئے۔ اقلیتوں میں رفاہی کام کیلئے اقلیتی ڈیسک قائم کیا۔ سماجی خدمات پروگرام کے تحت 24,297 مستحق خاندانوں میں ونٹر پیکیج تقسیم کیا اور سیلاب زدگان کیلئے فری کیمپس قائم کئے۔

 تعلیم، صحت اور صاف پانی کے ضمن میں انہوں نے انفرادی اور تعاون سے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ انہوں نے آغوش کے نام سے 6ادارے بنائے جہاں 550 بچوں اور 4300 بچیوں کی گھروں میں کفالت کررہے ہیں۔ ان کے رمضان پیکیج بھی ہیں۔ میں یہیں قلم روک دوں کہ کہیں الخدمت کو نظر ہی نہ لگ جائے۔ ہاں یہ ضرور بتا دوں کہ وہ بین الاقوامی خدمات میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ الخدمت کی سنہری روایات کا تسلسل نصف صدی سے جاری ہے۔ گویا ”یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں“۔ وہاں یہ شعر بھی پڑھا گیا:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
آخر میں ایک شعر

جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو
پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں

مختصراً یہ کہ الخدمت فاﺅنڈیشن خدمت کی درخشندہ مثال ہے اور یہ اسم بامسمّٰی ہے۔

سعداللہ شاہ

Post a Comment

0 Comments