Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یوم مزدور منانے سے کچھ حاصل ہوا؟...

ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ اس دن مزدور کے حقوق‘ اس کے مسائل‘ ان کا حل‘ لیبر قوانین پر عملدرآمد‘ مزدوروں کا معاشی تحفظ وغیرہ کے متعلق دنیا بھر میں سیمینارز‘ کانفرنسز وغیرہ منعقد ہوتی ہیں۔ یکم مئی کو این جی اوز‘ سماجی حقوق کی تنظیمیں‘ حکومتی سرکردہ شخصیات اور مزدوروں کے حقوق کے علمبردار خواب غفلت سے بیدار ہوکر مزدوروں کی حالت زار کا ایسے واویلہ کرتے ہیں جیسے ان کے غم میں ابھی مرے اور ابھی مرے۔ یکم مئی کومزدوروں کی ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب تر ہوتی حالت پر صرف بیان بازی
کی حدتک ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 قراردادیں پیش ہوتی ہیں اور بھلا دی جاتی ہیں۔ سرمایہ داروں پر لعن طعن کی جاتی ہے‘ صنعتکاروں کے ظلم کی دہائی دی جاتی ہے۔ مزدوروں کی معاشی بدحالی کا رونا رویا جاتا ہے۔ غرض وہ تمام کتابی باتیں کی جاتیں ہیں جوکہ مقرر کہیں سے پڑھ کر آرہے ہوتے ہیں۔

کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ وہاں قانون اور قانون کی بالادستی قائم رہتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں کاروان حیات کے دیگر شعبوں کی طرح معاشی بحران بھی اپنے عروج پر ہے۔ غریب ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب تر اور امیر ‘ امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ یکم مئی کو یوم مزدور ضرور منایا جاتا ہے لیکن مزدوروں کے ساتھ نہ تو حکومتی سطح پر انصاف کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی نمائندگی کرنیوالی لیبر یونینز ان کے حقوق کے لئے آخری حد تک کوششیں کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مزدور کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب نے تو مزدور کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے۔

کئی لیبرقوانین اور پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ مزدور کی حالت زار کو بہتر بنانے کی کوششیں ہوئیں لیکن نتیجہ صفر‘ وجہ صرف نیتوں کا فتور ہے۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان کے بعد اب تک چھ لیبر پالیسیاں بنیں۔ پہلی لیبر پالیسی 1955ء میں‘ دوسری 1959ئ‘ تیسری 1969ئ‘ چوتھی 1972ئ‘ پانچویں 2002ء اور چھٹی لیبر پالیسی 2010ء یعنی پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور جمہوریت میں بنائی گئی۔ یہ پالیسیاں صرف کاغذی کارروائیاں ثابت ہوئیں۔ ماسوائے 1972ء کی لیبر پالیسی کے جو ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور حکومت میں مرتب کی گئی تھی۔ 1972ء میں مزدر کی حالت قدرے بہتر ہوئی۔

 مزدوروں کو انتظامیہ میں 20فیصد تک نمائندگی کا موقع دیا گیا۔ لیبر کورٹ قائم کی گئیں جس کے تحت انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کی جانب موثر پیشرفت ہوئی۔ اسی طرح مزدور کی بہبود و رہائش کے لئے ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم کیا گیا۔ اسی دور کا عظیم کارنامہ عمر رسیدہ افراد کی مستقل مالی اعانت کے لئے ایک ادارہ کا قیام ہے جس کا نام E.O.B.I. ہے اور اس ادارے کا قیام یکم اپریل 1976ء کو عمل میں لایاگیا۔ بھٹو دور حکومت کے بعد ضیاء الحق مرحوم کی حکومت و مارشل لاء نے آئین معطل کردیا۔ تقریباً تین عشروں بعد یعنی 2002ء کے مشرف دور حکومت میں مزدور پالیسی تشکیل دی گئی اور بعد ازاں 2010ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں آخری مزدور پالیسی بنائی گئی۔

تمام قوانین اور پالیسیوں کی تشکیل کا مقصد تو مزدور کی فلاح و بہبود ہے لیکن آج حالات ہم سب کے سامنے ہیں کہ مزدور گردے اور بچے فروخت کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام نے ملک پر اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں۔ مزدوروں کے حقوق کے ضامن سیاستدان جو خود سرمایہ دار ہیں اور عملی طور پر مزدوروں کے حقوق کے سب سے بڑے غاصب ہیں۔ مزدوروں کی حالت زار اس وقت خراب ہونا شروع ہوئی جب سیاست میں جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں نے بھی اپنے قدم جمانا شروع کردیئے۔

یہ کہاوت مشہور ہے کہ جس ملک کی سیاست پر سرمایہ دار قابض ہوجائیں اس ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا اور ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا کہ یہاں کی سیاست پر سرمایہ داروں نے مرحلہ وار اپنا قبضہ جمالیا اور آج حالت یہ ہے کہ ملک کی تمام معاشی‘ اقتصادی پالیسیاں صرف اور صرف سرمایہ دار کے تحفظ کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دی جاتی ہیں اور کسی بھی حکومتی پالیسی کی تشکیل میں کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ 10-12ہزار ماہانہ آمدنی والا ایک غریب مزدور آخر کس طرح اپنی 4 افراد کی فیملی کے ساتھ گزربسر کرسکتا ہے جب بجلی 12 روپے فی یونٹ ہوجائے اور ہر روز مہنگائی کا طوفان برپا ہوتا چلا جائے۔ پہلے تو سال میں ایک بار بجٹ آتا تھا مگر اب روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے۔

یوم مئی پر لمبی چوڑی تقریریں کرنے والے حکومتی بااختیار افراد صرف مزدور کی کم از کم تنخواہ میں 4 افراد کی فیملی تو کجا 2 افراد کے ماہانہ اخراجات کا بجٹ بناکر دکھادیں۔ مزدور اس وقت تک خوشحال نہیں ہوسکتا جب تک سیاست میں سے سرمایہ داروں کا عمل دخل ختم نہیں ہوجاتا اور ایسا فی الوقت کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ مزدورں کے جائز حقوق انہیں مل سکیں۔ مزدور ہونا جرم بن چکا ہے اور اس جرم کی سزا گردے اور بچے فروخت کرنے اورخودکشیوں کی شکل میں آئے روز ہمارے سامنے ہیں۔ مزدور یونین کے نام پر کام کرنیوالے افراد بھی دکھاوے کی حد تک مزدور حقوق کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کا معیار زندگی دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ مزدور یونین کے نام پر کس قدر ’’حقوق‘‘ حاصل کئے جاچکے ہیں۔

مزدوروں کی فلاح میں اگر حکومت‘ مزدور یونینیں‘ این جی اوز اگر واقعتاً مخلص ہیں توعملی بنیادوں پر ان قوانین کو نافذ کرنا ہوگا جوکہ مزدور پالیسیوں میں درج ہیں۔ قانون کی روح اس کا نفاذ ہے۔ قانون جب تک نافذ نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ بے جان جسم کی مانند ہوتا ہے۔

رحمت خان وردگ

Post a Comment

0 Comments