Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

خواب کا پیالہ تعبیر کے لبوں تک....وسعت اللہ خان


ایک ایسی دنیا جس میں پاکستان منی سے زیادہ بدنام ہوا۔ جہاں کئی برس سے خلیجی عربوں اور ترکی وغیرہ کے علاوہ کوئی اور ملک سرمایہ کاری سے گھبراتا ہو۔جس کی سب سے بڑی کامیابی گذشتہ دس برس میں یہ ہو کہ وہ کرپشن کی عالمی رینکنگ میں دوسرے سے آٹھویں نمبر پر آگیا۔جسے نائن الیون کے بعد امریکا نے کثیر امداد تو دی مگر ساتھ میں کئی جائز ناجائز کام بھی تھما دیے۔دولت مند برادر ممالک نے رعایت تو دی مگر ایسے جیسے گھر کے چھوٹے کو بخشش دی جائے۔

ایسی فضا میں اگر چین جیسی اقتصادی سپر پاور کندھے پے ہاتھ رکھ کے کہہ دے  کوئی بات نہیں میں ہوں نا ’’۔ کچھ دیر تو یقین ہی نہ آئے گا کہ یہ خواب ہے کہ حقیقت۔کیا میں بھی کسی قابل ہوں ، مجھ پے بھی کوئی بھروسہ کرسکتا ہے۔ کیا کوئی مجھے بھی کہہ سکتا ہے کہ نیچے کیوں بیٹھے ہو میرے برابر بیٹھو…
اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو۔کوئی لنچ فری نہیں ہوتا۔ملک یاری پر نہیں مفادات و ترجیحات پر چلتے اور پلتے ہیں۔ ملک عبدالستار ایدھی یا مدر ٹریسا نہیں خالص کاروباری ہوتے ہیں۔ 

ملک ایک دوسرے کے لیے بیساختہ نہیں مسکراتے۔ان کی پیار بھری نگاہوں میں بھی معنی خیزی بھری ہوتی ہے۔ملک ایک دوسرے سے اچھی اچھی باتیں ضرور کرتے ہیں لیکن ان قصائد کے ظاہری و پوشیدہ مطالب میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔جو سمجھ گیا وہ تیر گیا جو نہ سمجھا ڈوب گیا۔

امریکی کانگریس ریسرچ سروس کے مطابق انیس سو پچاس سے اب تک قرضوں  گرانٹس ، مشاورت ، اجناس، اسلحہ وغیرہ کی مد میں پاکستان کو لگ بھگ چالیس ارب ڈالر کی امریکی امداد ملی۔ان میں وہ پندرہ ارب ڈالر بھی شامل ہیں جو نائن الیون کے بعد کے آٹھ برس میں ملے۔ان میں سن اسی کے افغان عشرے میں دیے جانے والے ساڑھے چار ارب ڈالر بھی شامل ہیں جب ہر امریکی ڈالر کے بدلے ایک ڈالر سعودی عرب نے بھی دان کیا ( یعنی کل ملا کے نو ارب ڈالر کا چندہ ۔

مگر کون بتائے گا کہ پاکستان میں یہ امداد کسے کسے ملی یا بٹی ، کہاں کہاں خرچ ہوئی ، پاکستان نے اس کے سہارے ایوب خانی دور کے بعد کتنی مادی ترقی کی ، عام آدمی کے معیارِ زندگی میں اس امداد کا عکس کہاں کہاں دیکھا جاسکتا ہے ؟ پھر بھی پاکستان پینسٹھ ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی مقروض کیوں ہے اور سود کی مد میں ہر سال دفاعی بجٹ سے زیادہ پیسہ کیوں چلا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے چھ اعشاریہ چھ بلین ڈالر کے قرضے کی اگلی قسط مانگنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد ماں کا لاڈلا کیوں آئی ایم ایف کو اسی طرح پراگریس رپورٹ پیش کرتا ہے جیسے بچہ ٹیچر کو بتاتا ہے کہ اس نے کتنا ہوم ورک کرلیا اور کیوں چھوڑ دیا اور باقی کب تک مکمل کرلے گا۔۔۔۔۔

تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک چین ہی ہے جس سے دل کو چین ہے۔اور یہ تو سب نے دیکھ لیا کہ چینی صدر کا کیسا شاندار استقبال ہوا کہ آئزن ہاور کا انیس سو انسٹھ کا استقبال بھی ماند پڑگیا جب کراچی کے ہر اونٹ کے گلے میں تھینک یو امریکا کی تختی لٹک رہی تھی۔ ہاں چین پاکستان دوستی تب سے ہے جب چین بین الاقوامی براداری میں اچھوت تھا اور آج پاکستان کی بھی کم و بیش وہی پوزیشن ہے۔ ایک دوست کے کندھے کو مضبوط سیاسی و اقتصادی ہاتھ کی ضرورت ہے اور دوسرے کو اپنی درآمد و برآمد کے لیے آسان اور محفوظ مختصر راہداری کی۔ باقی سب افسانہ ہے۔

ون روڈ ون بیلٹ ( ایک سڑک ایک پٹڑی ) کا اقتصادی نظریہ صدر شی پنگ نے ستمبر دو ہزار تیرہ میں پیش کیا۔یعنی اگلے دس برس میں پینسٹھ ممالک کے ساڑھے چار ارب لوگوں کی مارکیٹ کے لیے ایشیا تا یورپ ایسا اقتصادی نیٹ ورک تشکیل دینا ہے جس میں کم ازکم ڈھائی کھرب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوسکے۔اس کے لیے سڑک، ریل، پائپ لائن، ٹیلی کمیونیکیشن کا جال ضروری ہے جو چین کو وسطی ایشیا ، روس، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کی منڈی سے جوڑ دے۔اور پاکستان اس عظیم الشان منصوبے میں جغرافیے کا بنیادی پتھر ہے۔ اس مختصر راستے سے نہ صرف چینی مصنوعات باہر جائیں گی بلکہ مغربی چین کو ترقی دینے کا درکار سامان اور خام مال بھی آئے گا۔

جس اقتصادی کاریڈور کے اس وقت پاکستان میں چرچے ہیں اسی کاریڈور سے رفتہ رفتہ ایران اور پھر ترکی بھی جڑے گا۔اور اگر چینی تمنا کے مطابق پاک بھارت تعلقات نارمل ہوگئے تو پھر یہی کاریڈور دو شاخہ ہو کر براستہ بھارت برما  تھائی لینڈ اور دیگر آسیان ممالک کو چین سے ملائے گا جس سے سارک کو بھی اجتماعی فائدہ ہوگا۔( اس کاریڈور کے بغیر بھی چین بھارت تجارت کاحجم ستر بلین ڈالر اور چین پاکستانی تجارت کا حجم پندرہ بلین ڈالر سالانہ ہے )۔

جب کہ شمال میں ایسا ہی ون روڈ ون بیلٹ کاریڈور مغربی چین سے براستہ وسطیٰ ایشیا و روس یورپ تک جائے گا۔ بلجئیم کے شہر اینٹورپ سے جنوب مغربی چینی شہر چونگ چنگ تک کنٹینر ٹرین کی ساڑھے سات ہزار کلومیٹر کی سروس شروع بھی ہوچکی۔یعنی ایک ایسا نارتھ ساؤتھ یوریشین سرکلر روڈ اور ریلوے نیٹ ورک جس کا مرکز چین ہو۔یہ ہے چینی خواب۔ اب چیلنج یہ ہے کہ خواب کا پیالہ تعبیر کے لبوں سے کیسی آسانی یا مشکل سے جڑے گا۔

کیا آپ کو بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت یاد ہے ؟ کیا غل اٹھا تھا کہ پاکستان کے انرجی اور انفراسٹرکچر سیکٹرز میں تیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی مفاہمتی یادداشتوں ( ایم او یو ) پر دستخط ہوچکے ہیں۔مگر ہوا کیا ؟ آئی پی پی سیکٹر ( انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس ) میں عملاً تین ارب ڈالر تک سرمایہ کاری ہو پائی ۔اور اب یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اکیاون معاہدوں کے تحت مختص اڑتالیس ارب ڈالر گویا کل سے پاکستان پر خرچ ہونے شروع ہوجائیں گے۔

کسی نے ’’ اکیاون معاہدوں’’ کی فہرست غور سے پڑھی ؟ ان میں ایک جوائنٹ اسٹیٹمنٹ ، ایک آئی اے ، ایک کمرشل کنٹریکٹ ، دو ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ، دو ٹرم شیٹس،چار ایکسچینج نوٹس، پانچ پروٹوکول،چھ فریم ورک ایگریمنٹس، تیرہ میمورینڈم آف انڈر اسٹینڈنگ ( ایم او یو ) اور پندرہ ایگری منٹس ہیں۔اس کا آسان اردو مطلب یہ ہے کہ حتمی سمجھوتے سولہ اور باقی وعدوں کے مختلف مراحل میں ہیں۔ان اکیاون دستخط شدہ دستاویزات کو اکیاون معاہدے سمجھ لینا بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنے جیسا ہے۔

( وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال کے بقول اڑتالیس ارب ڈالر کے پیکیج میں سینتیس ارب ڈالر کی ممکنہ چینی سرمایہ کاری اور گیارہ ارب ڈالر کے کم شرح سود کے قرضے شامل ہیں۔ان میں سے اٹھائیس ارب ڈالر کے منصوبے اگلے تین برس میں مکمل ہوں گے )۔

ابھی تو اس کاریڈور کا نقشہ بھی کسی نے نہیں دیکھا جسے پاکستانی بلوچستان سے شن جیانگ یعنی چینی بلوچستان ( امن و امان کے معنوں میں) تک جانا ہے۔وفاقی وزارتِ منصوبہ بندی سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی تک کسی ویب سائٹ پر کوئی روڈ میپ نہیں۔پھر بھی گاؤں بسنے سے پہلے چور چور کا شور اٹھ چکا ہے۔مگر یہ ضروری تو نہیں کہ سمجھوتوں کے تمام مہربند وعدے ہو بہو پورے بھی ہوں۔ انڈونیشیا کے ساتھ دو ہزار پانچ میں چوبیس بلین ڈالر کے معاہدے ہوئے تھے۔اب تک وہاں صرف ایک اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری ہو پائی۔

کیا آپ کو ڈیڑھ برس پرانا چھ تا آٹھ بلین ڈالر مالیت کا گڈانی پاور پارک پروجیکٹ یاد ہے جہاں اسی پاک چین اکنامک کاریڈور منصوبے کے تحت ہنگامی بنیاد پر چھ ہزار چھ سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لیے دس بجلی گھر تعمیر ہونے تھے۔ یاروں نے گڈانی پاور پارک مینجمنٹ اتھارٹی بنا کہ خوب ڈھنڈورا پیٹا کہ دو ہزار اٹھارہ تک منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔نواز شریف نے گڈانی منصوبے کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا۔پھر ہوا کیا؟ چین نے نظرِ ثانی کرکے دس بجلی گھر گھٹا کے چار کردیے اور اس منصوبے کو ترجیحاتی منصوبوں کی فہرست سے نکال کے اہم منصوبوں کی فہرست میں ڈال دیا۔

ہاں سب منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچیں گے لیکن آپ کی اور میری مرضی سے نہیں بلکہ پیسہ لگانے والے کی ترجیحات اور فائدے نقصان کی جمع تفریق کے مطابق۔اس لیے آپس میں پیشگی گتھم گتھا ہونے ، جھوٹ میں سچ ملا کر بطور کامیابی پیش کرنے ، دو اور دو پانچ دکھانے اور وفاقی یونٹوں سے طفل چالا کیاں کرکے گدلا پانی اور گدلا کرنے سے فائدہ ؟ پیسہ توڑتا بھی ہے اور جوڑتا بھی ہے۔کاریڈور کھولنے سے پہلے آنکھیں کھولیے۔

وسعت اللہ خان
"بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس

Post a Comment

0 Comments