Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مجوزہ 27ویں ترمیم : ’یہ فیصلہ ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگا کر کرنا ہو گا‘

بلآخر پینڈورا باکس کھل چکا ہے۔ 27ویں ترمیم کے حوالے سے قیاس آرائیاں گزشتہ کئی ماہ سے گردش میں تھیں۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں آئین میں مجوزہ ترمیم کے وسیع فریم ورک کا ذکر کیا ہے۔ اس تجویز میں آئین میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کا تصور کیا گیا ہے اور اس کا ایک حصہ عدلیہ کی آزادی کو مزید محدود کرنے اور قومی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبائی شیئر کے تحفظ کو ختم کرنے سے متعلق ہے۔ لیکن شاید اس تجویز میں سب سے دلچسپ شق آرٹیکل 243 میں تبدیلی ہے جو مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری اور خدمات کے ڈھانچے سے متعلق معاملات کے حوالے سے ہے۔ ترامیم کے بارے میں کوئی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں لیکن کچھ وسیع خاکے ہیں جن پر مبینہ طور پر وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ اس پوری صورت حال کی رازداری سے لگتا ہے کہ اس معاملے کی بازگشت بند دروازوں کے پیچھے کئی ماہ سے جاری ہے اور اس امر نے خدشات کو جنم دیا ہے۔ قانون ساز حتیٰ کہ کابینہ کے وزرا بھی ایسی اہم ترمیم کے بارے میں مکمل طور پر اندھیرے میں دکھائی دیتے ہیں جسے پارلیمنٹ میں ابھی پیش کیا جانا ہے۔

ان قیاس آرائیوں میں کچھ سچائی نظر آتی ہے کہ مسودہ کہیں اور سے آیا ہے جیسا کہ 26ویں ترمیم کے معاملے میں کہا جارہا تھا جسے گزشتہ سال پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیا گیا تھا۔ ہائبرڈ حکمرانی کی پریشان کُن حقیقت یہی ہے۔ ملک کے سیاسی طاقت کے ڈھانچے اور وفاق کے انتہائی حساس آئینی معاملے سے بھی پارلیمنٹ اور کابینہ غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ آئین میں اس طرح کی بڑی تبدیلیوں کے پیچھے جو مقصد ہے، اس کے بارے میں بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ آئین کوئی مقدس دستاویز نہیں ہے جسے بدلتے ہوئے ملک و حالات اور وفاق کو درپیش چیلنجز کے مطابق تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کوئی بھی تبدیلی جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو جیسے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کے منصفانہ توازن میں تبدیلی، آمریت کا باعث بن سکتی ہے اور ملک کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت اور وفاق کو مضبوط کرنے کے لیے صرف جمہوری طور پر منتخب نمائندوں کو آئین میں ترمیم کا حق حاصل ہے۔ 

لیکن جس خفیہ طریقے سے ترامیم تیار کی جا رہی ہیں، اس سے وہ بنیادی جمہوری تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ مجوزہ ترمیم کو منظور کرنے سے پہلے اس پر عوامی سطح پر اور پارلیمنٹ دونوں میں وسیع بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ حکومت اپنے مشکوک عوامی مینڈیٹ کے ساتھ اس ضروری جمہوری عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مجوزہ ترمیم کا مسودہ تیار کرنے میں مخلوط حکومت کا کتنا کردار ہے کیونکہ کابینہ کے بعض اراکین بھی نجی طور پر ایسے معاملات میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن وہ خود کو مکمل طور پر ذمہ داری سے بری نہیں کر سکتے۔ وہ ملک میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے میں برابر کے مجرم ہیں۔ جس طرح سے 26ویں ترمیم کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا وہ آئین کو مسخ کرنے میں ان کے تعاون کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ چونکہ مجوزہ ترمیم کا مکمل متن دستیاب نہیں ہے، اس لیے صرف ان نکات کا جائزہ ہی لیا جاسکتا ہے جن پر پی پی پی چیئرمین نے روشنی ڈالی ہے اور بعد میں وزیر مملکت برائے قانون نے سوشل میڈیا پر اس کی تصدیق بھی کی۔ 

تجویز کی اہم ترین شقوں میں سے ایک الگ آئینی عدالت کا قیام ہے۔ مجوزہ ترمیم کو بعض مبصرین نے متنازعہ 26ویں ترمیم کی توسیع کے طور پر بیان کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ نئی ترمیم اعلیٰ عدلیہ کو مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت بنانے کی کوششوں کا حصہ ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تجویز اس وقت پیش کی گئی ہے کہ جب 26ویں ترمیم کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواست سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیرِ سماعت ہے جوکہ خود متنازعہ قانون سازی کی پیداوار ہے۔ ایک علیحدہ آئینی عدالت، آئینی معاملات پر عدالت عظمیٰ کے جو بھی اختیارات باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی چھین لے گی۔ یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔مجوزہ آئینی عدالت کے منتخب ججز سے بھرے ہونے کا کافی امکان ہے جیسا کہ ہم نے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے آئینی بینچ کے لیے ججز کی تقرری کے معاملے میں دیکھا ہے جس پر حکمران اتحاد سے وابستہ اراکین کا غلبہ ہے۔ لیکن شاید سب سے زیادہ متنازع تجویز ہائی کورٹ کے ججز کے دیگر علاقائی عدالتوں میں تبادلے کا بندوبست ہے۔ اس سے ہائی کورٹ کے ججز کی پوزیشن نچلی عدالت کے ججز یا سرکاری ملازم تک محدود ہو جائے گی۔

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح دیگر عدالتوں کے ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں لایا جاتا ہے اور جو اپنی اصل عدالت میں سنیارٹی لسٹ میں نچلے درجوں میں ہوتے ہیں، انہیں چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔ مجوزہ ترمیم ایگزیکٹیو کو ان ججز کو سزا دینے کی اجازت دے گی جو ایگزیکٹو اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ فوجی سربراہان کی تقرری اور خدمات میں توسیع سے متعلق مجوزہ ترمیم کو جواز بناتے ہوئے وزیر مملکت برائے قانون نے مبینہ طور پر اشارہ کیا ہے کہ یہ ضروری تھا کیونکہ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد پہلی بار کسی افسر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔ آرمی چیف کے مزید اختیارات کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں لیکن سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبوں کو مالی وسائل کی تقسیم میں مجوزہ تبدیلیاں ایک انتہائی بڑے مسئلے کو جنم دے گی۔ مبینہ طور پر سندھ میں پی پی پی کے ایک عہدیدار کے بیان نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیا۔ یہ سوال بھی ہے کہ کیا دوسرے صوبے اس تبدیلی کو قبول کریں گے۔ ترمیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے وفاقی جماعتوں کے درمیان وسیع اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار اور حزب اختلاف کے متعدد قانون سازوں کی نااہلی کے بعد حکمران اتحاد کے پاس اب دونوں ایوانوں میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت ہے تو ایسے میں حکومت کے لیے ایک اور ترمیم کو ’بلڈوز‘ کرنا یا بغیر بحث کے منظور کروانا مشکل نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا فیصلہ ملک اور ایک جمہوری قوم کے مستقبل کی قیمت پر ہو گا۔

زاہد حسین  

بشکریہ ڈان نیوز 

Post a Comment

0 Comments