پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ریاض میں اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط یقیناً دونوں ریاستوں کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگرچہ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی تعلقات کم از کم 1960ء کی دہائی سے قائم ہیں اور پاکستانی فوجی مختلف ادوار کے دوران سعودی مملکت میں تعینات رہے ہیں لیکن یہ حالیہ معاہدہ گزشتہ معاہدوں کو تقویت دیتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اس اصول کا اعادہ کیا ہے کہ ’کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا‘۔ گزشتہ چند سالوں سے مبینہ طور پر دفاعی معاہدے پر بات چیت ہو رہی تھی لیکن اس پر دستخط کرنے کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے جبکہ یہ حقیقت کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے چند دن بعد دونوں میں باہمی معاہدہ طے پایا ہے تو ایسے میں عالمی سطح پر اسے توجہ نہ ملنا ناممکن تھا۔ سعودی عرب سمیت خلیجی عرب ریاستیں بہ ظاہر یہ سمجھ چکی ہیں کہ امریکا کے ساتھ گہرے تعلقات کے باوجود امریکا کا ان کے دفاع میں آنے کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے اب وہ دیگر آپشنز تلاش کر رہی ہیں۔
پاکستان جو خلیجی سلطنتوں کے ساتھ بہترین تعلقات رکھتا ہے اور جس کے پاس جنگی تجربہ کار فوج ہے، انہیں ایک فطری شراکت دار دکھائی دیتا ہے۔ تاہم چند سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ ایک تو برصغیر کی صورت حال بدستور غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ سعودیہ کے نئی دہلی کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہو سکتے ہیں لیکن اگر بھارت، پاکستان پر دوبارہ حملہ کرتا ہے تو کیا ریاض، پاکستان کے دفاع میں مدد کرے گا؟ ان سوالات کے واضح جوابات کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب بھارت نے پاکستان کے خلاف مزید جارحیت کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے ’مضمرات کا مطالعہ‘ کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاک-سعودیہ دفاعی معاہدے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ بلاشبہ پاکستان کی سفارتی اور جغرافیائی سیاسی فتح ہے۔ امید ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ریاستوں کے درمیان پہلے سے موجود خوشگوار تعلقات کو مزید گہرا کرے گا۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ دیگر خلیجی ریاستیں مستقبل میں پاکستان کے ساتھ ایسے ہی معاہدوں پر دستخط کر سکتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو دو طرفہ دفاعی تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے لیکن بڑے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے بالخصوص جہاں تک مشرق وسطیٰ کی اجتماعی سلامتی کا تعلق ہے، اب بھی ایک خلا موجود ہے۔ خلیج میں ’اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن‘ جس کی بنیاد 2015ء میں رکھی گئی تھی اور جس کی سربراہی سابق آرمی چیف راحیل شریف کر رہے تھے، اسے مسلم دنیا کے اجتماعی دفاع کے لیے دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال 43 رکنی ادارہ بہت زیادہ متحرک نہیں۔ اگر اس میں ایران اور دیگر مسلم ریاستوں کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی گئی، جو اس وقت اس کے رکن نہیں ہیں تو یہ اسرائیل کو ایک مضبوط پیغام دے سکتا ہے جو کہ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ مسلم اور عرب دنیا کے لیے موجودہ سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اتحاد کے اہداف کا از سرِ نو تعین غزہ میں نسل کشی کو ختم کرنے اور صہیونی ریاست کے علاقائی ممالک پر مزید حملوں کو روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔ مسلم نیٹو کا بنیادی ڈھانچہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ لیکن باقی تمام مسلم ریاستوں کے لیے اپنے دروازے کھولنا اور باہمی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا باقی ہے۔ پاکستان کی دشمن ریاستوں کو اس طرح کا اتحاد مستقبل میں مزید حملے کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
0 Comments