Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مشتاق احمد خان بمقابلہ جماعت اسلامی

جناب سینیٹر مشتاق خان صاحب کا نیا سفر شروع ہوا ہے۔ اس پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا۔ میرا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق ہے نہ میں کبھی اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ رہا ہوں، البتہ تحاریک اسلامی کے ایک طالب علم کے طور پر میرے دل میں جماعت کے لئے ہمدردی ہے، نرم گوشہ ہے، (یہ اور بات کہ جماعت کے بعض سوشل میڈیا وابستگان کے لئے صرف سافٹ کارنر یا ہمدردی ہونا قابل قبول نہیں، ان کے نزدیک مکمل اطاعت اورتقلید کامل ضروری ہے۔) میری مشتاق خان صاحب کے لئے بہت اچھی رائے ہے۔ غز ہ کے بارے میں ان کے مضبوط اور غیر معمولی کردار کا میں معترف ہوں ۔ انہوں نے بڑی جرات اور دلیری کا مظاہرہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ان کے جارحانہ، بہت مضبوط اور عزیمت پر مبنی موقف کا ساتھ دینا ان کی پارٹی کے لئے بھی مشکل ہو گیا تھا۔ کبھی کارکن اپنی پارٹی سے زیادہ تیز بھاگ کر آگے نکل جاتا ہے اور پارٹی کے لئے اس کی رفتار کے ساتھ چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ مشتاق خان صاحب کے لئے ہو رہا تھا۔ میرا مشتاق صاحب کے حوالے سے حسن ظن کا معاملہ ہے۔ مجھے یہ قطعی طور پر نہیں لگتا کہ انہوں نے صمود فلو ٹیلا کے سفر میں اپنی ذاتی کوریج، پروجیکشن یا قد کاٹھ بڑھانے کی کوشش کی۔ جن احباب کی یہ رائے ہے، میں اس سے قطعی طور پر اتفاق نہیں کرتا، مجھے یہ منفی رائے لگ رہی ہے۔ بلکہ ایسا کہنا ہی صریحاً زیادتی ہے۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ فلوٹیلا کا سفر آسان نہیں تھا، درحقیقت یہ جان کی بازی لگانے والا معاملہ تھا۔ سمندر کے ایسے سفر میں کچھ بھی ہو سکتا تھا، چند سال پہلے ایک ایسے ہی فلوٹیلا میں اینکر طلعت حسین بھی تھے، اس میں اسرائیلی فوجیوں کے حملے سے کئی جانیں چلی گئیں تھیں۔ میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ مشتاق احمد خان غزہ جانے کے لئے اس فلوٹیلا میں گئے تاکہ ہائپ بنے، وہ مشہور ہوں اور واپس آ کر جماعت اسلامی چھوڑ دیں۔ نہیں جناب والا، ایسا نہیں ہوتا۔ اپنی جان داو پر کوئی نہیں لگاتا۔ اگر ایسا آسان لگتا ہے تو کوئی اور کر کے دیکھ لے۔ مشتاق احمد خان کے اسلوب، طرز سیاست پر اعتراض یا تنقید ہو سکتی ہے، مگر بہرحال وہ ایک پرعزم ، مخلص اور دردمند انسان ہیں، انہیں اس کی رعایت تو دینا ہی ہو گی۔ بعض جماعتی احباب اور سوشل میڈیا لکھاریوں نے لکھا ہے، کھل کر یا دبے لفظوں میں کہ مشتاق خان صاحب نے دانستہ ایک پلاننگ اور سوچ کے تحت اپنا الگ راستہ اپنایا، امیر جماعت سے اختلاف کیا، اپنا قد کاٹھ بڑھانے کی کوشش کی وغیرہ وغیرہ۔ مجھے یہ رائے بھی غلط اور نامناسب لگ رہی ہے۔ یہ واضح طور پر بدظنی ہے اور خلاف واقعہ بھی۔

میرے خیال میں یہ افتاد طبع، مزاج اور ایک خاص انداز کا معاملہ ہے ۔ مشتاق خان صاحب کو لگتا ہے جینونلی بعض معاملات پر مرکزی نظم یا صوبائی نظم سے اختلافات ہوں گے یا طریقہ کار سے وہ عدم اتفاق رکھتے ہوں گے یا کچھ اور۔ اسی وجہ سے انہوں نے صوبائی امارت چھوڑی اور پھر پیش کش کے باوجود کسی ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ ایسا ہوتا ہے، یہ فطری معاملہ ہے۔ اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، حسن ظن کے ساتھ۔ مشتاق خان صاحب نے جماعت سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی پر تنقید نہیں کی، انہوں نے اپنے عزائم کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے کچھ مشکلات اور پابندیاں عائد ہو جاتی ہے، وہ ان سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کوئی منفی بات نہیں کی، مثبت انداز میں ذکر کیا۔ اسے سراہنا چاہیے۔ اللہ کرے کہ ان کا یہ طرزعمل رہے۔ جماعت اسلامی چھوڑ جانے کی پہلے بھی کئی مثالیں ہیں۔ بعض قدآور لوگوں نے جماعت اسلامی چھوڑی اور پھر بعد میں وہ تحاریک اسلامی کے منشور سے جڑے رہے۔ اپنے اپنے انداز میں کام کرتے رہے۔ جماعت کی راہ میں مزاحم بھی نہ ہوئے۔ ایک فرق البتہ یہ ہے کہ ماضی کے یہ زعما بنیادی طور پر علمی لوگ تھے، مولانا امین احسن اصلاحی سے ڈاکٹر اسرار احمد اور پھر مولانا نعیم صدیقی وغیرہ۔ 

مشتاق خان صاحب کا علمی کام نمایاں نہیں، وہ سیاسی کارکن ہیں اور سیاسی حرکیات ان کا اصلاً موضوع ہے، وہ پرجوش ایجی ٹیشن اور دیگر سیاسی حربوں جیسے دھرنے، گرفتاری وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں۔ مشتاق خان صاحب نے اپنے مستقبل کے عزائم کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ اور فلسطین کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں گے، ملک میں ایک لاکھ کمیٹیاں بنائیں گے، وہ فلسطین کے حوالے سے عالمی سطح پر کام کرنے والی شخصیات جیسے گریٹا تھنبرگ کو پاکستان مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، وہ پاکستان سے ایک فلوٹیلا بھی لانچ کرنا چاہتے ہیں، جس کا آغاز کراچی سے ہو۔ یہ تو خیر انٹرنیشنل سطح کا ایجنڈا ہے، حکومت پاکستان کو بھی اس پر زیادہ اعتراض نہیں ہو گا، زیادہ سے زیادہ طریقہ کار کا معاملہ زیربحث آ سکتا ہے۔ مشتاق خان صاحب کا نیشنل اور علاقائی پالیٹکس کے حوالے سے بھی ایجنڈا سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ قوم پرست رہنمائوں جیسے ماہرنگ بلوچ وغیرہ سے ملنا چاہتے ہیں، وزیرستان میں پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین وغیرہ سے بھی ملیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ عمران خان کے فری ٹرائیل کا مطالبہ بھی کریں گے۔ یہ تینوں چاروں نکات اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے ہیں۔ کسی حد تک یہ پرو تحریک انصاف موقف بھی ہے۔

اب یہاں پر جماعت اسلامی کی اپنی پالیسیوں اور سوچ کا معاملہ آ جاتا ہے۔ جماعت کا اپنا ایک خاص نقطہ نظر ہے۔ فلسطین کے حوالے سے تو جماعت اور مشتاق خان صاحب کے موقف میں ہم آہنگی ہے، البتہ طریقہ کار کا اختلاف ہو سکتا ہے، جماعت اپنے حساب کتاب سے کام کرنا چاہے گی، اس کی خواہش ہو گی کہ کسی ایک فرد کے بجائے پارٹی کی شناخت ، بینر اور پلیٹ فارم اہم ہو، وغیرہ وغیرہ۔ البتہ پی ٹی ایم کا معاملہ ہو یا ماہرنگ بلوچ سے ملاقات اور کسی انداز کی مشترکہ جدوجہد جبکہ آڈیالہ جیل میں اسیر عمران خان کی حمایت میں کس حد تک جانا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ، یہ سب معاملات ایسے ہیں جہاں پر جماعت اسلامی کی اجتماعی سوچ، پالیسی اور وژن کا مشتاق احمد خان سے براہ راست ٹکرائو ہو سکتا ہے۔ یہاں پر میری رائے میں جماعت اسلامی کا موقف زیادہ درست اور صائب ہے۔ جماعت کوئی پرجوش فرد نہیں جو دیوانہ وار کچھ بھی کر گزرے۔ یہ ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کی کئی عشروں پر پھیلی تاریخ ہے، ہزاروں اس کے کارکن ہیں اور بہرحال لاکھوں حامی بھی ۔ اس کا اپنا وسیع نیٹ ورک ہے جس میں الخدمت جیسی چیریٹی تنظیم سے لے کر پی او بی اور غزالی ٹرسٹ سکولز نیٹ ورک بھی شامل ہیں، کئی اور شعبے اور پہلو بھی ہیں۔ جماعت کے اندر شوریٰ کا مضبوط اور منتخب نظام ہے۔ 

امیر جماعت کو خاصے اختیارات حاصل ہیں، مگر بہرحال وہ شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہے۔ جن لوگوں کو جماعت کی شوریٰ کی روداد پڑھنے کا موقعہ ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ کئی مواقع پر امیر جماعت کی سوچ اور موقف کا شوریٰ کے ہاتھوں بن کِھلے غنچوں والا حال ہوا۔ یہ اچھی اور قابل تحسین بات ہے، جمہوریت اور شورائی نظام اسی کو کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اراکین کی سوچ کے مطابق پالیسیاں بنائے۔ کسی ایک رکن یا لیڈر کو خواہ وہ کتنا ہی عوامی مقبولیت رکھتا ہو، قد کاٹھ کا حامل ہو، اسے پوری جماعت کو ڈکٹیٹ کرانے کا حق حاصل نہیں اور نہ ایسا ہونا چاہیے ۔ ویسے ایک پہلو موجودہ امیر جماعت بھی ہیں۔ اگر اس وقت سراج الحق امیر جماعت اسلامی ہوتے تو شائد مختلف نقشہ ہوتا کہ سراج لالہ معاملات کو کسی نہ کسی طرح چلا لیتے تھے، بعض حوالوں سے وہ زیادہ لچکدار کہیں یا ڈھیلے کہیں یا جو بھی اسے کہا جائے، اس طرزعمل کے حامل تھے۔ حافظ نعیم ان کی نسبت بہت زیادہ مستعد، چاک چوبند اور یکسو دل ودماغ کے حامل ہیں۔ وہ ڈسپلن کے حوالے سے بھی زیادہ سخت اور مضبوط ہیں اور معاملات کو غیر ضروری لٹکانے کے بھی قائل نہیں۔

حافظ نعیم الرحمن صاحب ان کے دورامارت میں مشتاق احمد خان کے لئے ایک ہی آپشن تھی کہ مشتاق احمد خان جماعت کے نظم ونسق کے پابند رہیں اور اپنے طور پر کوئی ایڈونچر نہ کریں ، کوئی ایسا انیشیٹو نہ لیں جو جماعت کی پالیسی کے برعکس یا خلاف ہو۔ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن مشتاق احمد خان کے پاس نہیں تھی۔ جماعت کے اس سیٹ اپ میں گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن کے لئے تھوڑی بہت لچک اس لئے نکل آتی ہے کہ وہ بلوچستان کی صوبائی سیاست کے ایشوز میں ہی الجھے ہیں، انہیں لائم لائٹ یا بڑے پیمانے پر پروجیکشن نہیں ملتی اور بہرحال بلوچستان میں وفاق کی سیاست کرنے والے بھی کسی شخص کے لئے قوم پرست معاملات سے لاتعلق رہنا آسان نہیں۔ جس دن مولانا ہدایت الرحمن نے مشتاق احمد خان کے طرز سیاست اور انداز کو فالو کیا، ان کا بھی جماعت کے نظم سے ٹکرائو شروع ہو جائے گا۔ مشتاق احمد خان کے لئے یہی بہتر تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ جماعت کے نظم اور اس کی پالیسیوں کے تابع کام کرنا ہے یا جماعت چھوڑ کر اپنے طور پر اپنے وژن کے مطابق سیاست کریں۔ انہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ انہیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کا احترام کرنا چاہیے ۔

ہمارے ایک محترم قلم کار دوست نے مشتاق احمد خان کے اس فیصلے کے حوالے سے لکھا اور اپنی سابق تحریروں کا حوالہ بھی دیا کہ اس طرح کے جو لوگ تحریک اسلامی چھوڑ دیتے ہیں، ان میں سے بعض مفاد پرست ٹوائلٹس کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ بات کہنا نامناسب ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک ہائی پروفائل لیڈر کو جسے عوامی پزیرائی اور مقبولیت بھی حاصل ہو گئی ہے، اسکا جماعت چھوڑ دینا ظاہر ہے وابستگان جماعت کے لئے دھچکا ہے، تکلیف کا باعث ہو گا۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ جانے والے کو یوں ڈس کریڈٹ کر دیا جائے، اسے یکایک صفر بنا دیا جائے۔ اس بات سے بھی مجھے اتفاق نہیں کہ کسی کارکن سے لیڈر بننے تک جماعت کی بہت انویسٹمنٹ ہوتی ہے، کارکنوں کی انویسٹمنٹ ہوتی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ سب سے زیادہ انویسٹمنٹ تو اس انسان کی اپنی ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی بات کر رہے ہیں، پتھروں کی نہیں۔ ایسا نہیں کہ کارکن پتھر ہے جسے پارٹی نے اٹھایا اور یکایک تراش دیا۔ بھائی اس کارکن کو گراس روٹ لیول سے اوپر تک آنے میں پچیس تیس پینتیس سال کا عرصہ لگا۔ اس نے اپنی پوری جوانی، ادھیڑ عمری اس پارٹی کے لئے کھپا دی۔ اپنی زندگی بھر کی انرجی صرف کی۔ 

سیاہ بالوں والے نوجوان سے اب وہ سفید ریش ہو گیا۔ اس دوران اس نے بے شمار قربانیاں دیں، ماریں کھائیں، کٹھنائیں برداشت کیں، جیلوں میں گیا۔ اپنی محنت سے بہت کچھ سیکھا، حاصل کیا۔ مطالعہ کیا، کتابوں اور زندگی کے تجربات سے اخذ کیا۔ یہ سب صرف پارٹی نے نہیں کیا، اپنی بھی تو محنت، جدوجہد اور ٹیلنٹ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ پارٹی تو سب کے لئے اوپن ہے، دوسرے کیوں نہیں نمایاں ہوگئے ؟ جو جمعیت میں ایک ہی سال آئے یا آگے پیچھے کے دوچار برسوں میں ، وہ سینکڑوں ہزاروں میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک آدھ دانہ ہی ابھر کر اوپر آتا ہے اور پھر ٹاپ پر جا پہنچتا ہے۔ پارٹی نے مواقع دئیے، خیال بھی رکھا ہو گا، مناسب سازگار ماحول بھی مہیا کیا، مگر یہ تو سب کے لئے ہی تھا۔ ایک شخص اگر منفرد، ممتاز اور نمایاں ہوا تو اس میں اس کی اپنی انویسٹمنٹ اور جوش وجنوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کارکن یا اس پارٹی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ صرف اسی بنیاد پر اموشنل بلیک میلنگ کرے۔ مشتاق احمد خان نے اچھا کیا کہ خوش اسلوبی کے ساتھ جماعت سے استعفا دیا، کوئی طعنہ، شکوہ شکایت نہیں کی۔ انہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں۔ جب جماعت چھوڑ دی تو پھر شکوے شکایت بھی بھول جائیں۔ ویسے بھی انہوں نے مورچہ بدلا ہے، ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ تحریک اسلامی سے رابطہ اور محبت کا تعلق رکھیں۔ اپنے حساب سے سیاست کریں، مگر تحریک انصاف یا کسی اور جماعت میں جانے سے گریز کریں۔ اپنے لئے کوئی پلیٹ فارم بنانا ہے تو وہ غیر رسمی اور غیر محدود سا ہو۔

تیرہ برس ہوتے ہیں، دو ستمبر دو ہزار بارہ کی شام میں نے کالم لکھ کر اپنے ایڈیٹر ایڈیٹوریل جناب ہارون الرشید کو دکھایا، اگلے روز تین ستمبر کو روزنامہ دنیا شروع ہو رہا تھا۔ میں بطور میگزین ایڈیٹر، کالم نگار وہاں کام کر رہا تھا۔ میں نے پہلے دن کے اخبار کے لئے کالم میں اپنی سفری روداد لکھی اور نئے عزم کا اظہار بھی کیا۔ ہارون الرشید صاحب نے کالم پڑھا، مجھے تاریخ اسلام سے ایک واقعہ سنایا۔ میں نے کالم واپس لیا، وہ واقعہ اختتام پر لکھ کر پھر سے کالم پیش کیا۔ سرخی بھی اسی مناسبت سے بنائی۔ واقعہ یوں تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب جناب خالد بن ولید فتوحات حاصل کر رہے تھے، سیدنا عمر کی ان سے ملاقات ہوئی تو حضرت خالد نے ایک قیمتی لبادہ اوڑھ رکھا تھا، سیدنا عمر نے دیکھا تو بول اٹھے، خالد تم ہماری زندگیوں ہی میں بدل گئے۔ جناب خالد بن ولید نے جنہیں عالی مرتبت ﷺ نے سیف اللہ کا لقب دیا تھا، انہوں نے میان سے تلوار نکالی، ہوا میں لہرائی اور بولے ، امیر المومنین شمشیر وہی ہے۔

میں نے اپنے اس کالم کا نام بھی یہی رکھا تھا، شمشیر وہی ہے۔ ہم آج کے دنیا دار لوگ پاکباز صحابہ کے غلام ، ان کے غلاموں کے غلام، ان کے پاوں کی خاک۔ بات مگر یہ ہے کہ آدمی کا طرزعمل ثابت کرتا ہے اس کی شمشیر وہی ہے یا نہیں؟ جناب مشتاق احمد خان کے لئے نیک تمنائیں۔ اللہ پاک انہیں وقت کے ترازو میں بھاری، سرخرو اور سربلند رکھے، آمین۔ رہی جماعت اسلامی تو اس کے مرکزی اور صوبائی نظم نے اپنے ایک پرانے ساتھی کو سلیقے سے وداع کیا ہے۔ رنج کے باوجود اپنی زبانیں بند رکھی ہوئی ہیں۔ یہی انہیں زیب دیتا ہے۔ ایسا ہی کرنا چاہیے ۔ کاش سوشل میڈیا پر وابستگان جماعت بھی اپنی تلواروں کو واپس میان میں ڈال لیں اور اپنے پرانے ہم سفر کو محبت اور احترام سے رخصت کریں۔

عامر خاکوانی
بشکریہ تاشقند اردو 

Post a Comment

0 Comments