Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا غزہ پر قبضے کی کارروائی نتن یاہو کے زوال کا آغاز ہے؟

اسرائیل کی غزہ شہر میں فوجی کارروائیاں شروع ہو گئی ہیں جس کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی جا رہی ہے اور اسرائیلی شہروں میں بھی مظاہرے سامنے آئے ہیں۔ یہ کارروائی اسرائیل کی اس مہم کا آخری مرحلہ سمجھی جا رہی ہے جس کا مقصد سات اکتوبر کے حملے میں ملوث حماس کو تباہ کرنا ہے۔ یہ زمینی کارروائی اتنی ہی زیادہ خطرناک ہے جتنی اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی غزہ میں پچھلی کارروائیاں تھیں اور یہ سب سے زیادہ متنازع بھی ہے۔ سکیورٹی کابینہ نے اس کارروائی کی منظوری دو ہفتے قبل دی جس پر تقریباً ایک دن تک غور ہوتا رہا اور اس دوران سینیئر فوجی رہنماؤں نے کھل کر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ سڑکوں پر مظاہرے بڑھ گئے۔ لوگ تین باتوں پر احتجاج کر رہے تھے جن میں اس فوجی کارروائی کے خطرات، 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو بلانے کے فیصلے (جب کہ کچھ لوگ غیر معمولی طور پر فوجیوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ بھرتی سے انکار کریں) اور اس خدشے پر کہ یہ نئی کارروائی اسرائیل کے باقی 20 قیدیوں کی واپسی کو، جو شاید ابھی زندہ ہوں، اور بھی مشکل بنا دے گی۔

قطر اور مصر کے ساتھ ایک نئے جنگ بندی معاہدے اور ممکنہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت دوبارہ شروع ہوئی ہے مگر چونکہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ کسی بھی جنگ بندی کی شرط تمام یرغمالیوں کی واپسی ہے اور پچھلے مذاکرات ناکام رہے ہیں، اس لیے اس بار بھی کامیابی کی امید کم ہی ہے۔ اس دوران غزہ شہر کے 10 لاکھ سے زائد لوگوں کا جبری انخلا تباہ حال غزہ پٹی کے دوسرے علاقوں میں جاری ہے۔ یہ سب وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو کی نگرانی میں ہو رہا ہے جو تقریباً 30 برسوں سے اسرائیلی سیاست پر غالب رہے ہیں۔ ان کی سیاسی طاقت نے انہیں کئی بحرانوں اور سکینڈلز کے باوجود اقتدار میں قائم رکھا ہے لیکن جیسے ہی غزہ شہر میں فوجی کارروائی شروع ہوتی ہے، ایک جائز سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطرہ آخرکار ان کے اقتدار کے خاتمے کا باعث تو نہیں بن جائے گا؟ غزہ کے خلاف حماس کو تباہ کرنے کے دعوے والی اسرائیل کی کارروائی کئی پہلوؤں سے اسرائیل کی جانب سے ایک غیر معمولی مہم ثابت ہوئی ہے۔ یہ مہم بکھری ہوئی، سمت سے عاری، غیر ضروری طاقت کے استعمال پر مبنی، بے رحمی سے جانی نقصان کرنے والی اور انسانی امداد میں نااہلی اور انتقامی رویے سے بھری ہوئی نظر آئی۔ 

یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اتنے کمزور دشمن کا سامنا کرتے ہوئے، وہ ملک اور فوج جو اپنی درستگی کے لیے مشہور ہیں، ایک ایسی جگہ پر جسے وہ پہلے بھی قابض رہ کر اچھی طرح جانتے تھے، اتنی زیادہ تباہی کیسے مچا سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ صلاحیتوں میں بے انتہا عدم توازن اور یہ حقیقت ہو سکتی ہے کہ حماس آبادی میں گہرائی تک جمی ہوئی تھی اور اب بھی ہے۔ مگر ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اسرائیلی قیدی وہاں موجود تھے اور اسرائیل بیک وقت دو ناممکن اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا یعنی حماس کو ختم کرنا اور تمام قیدیوں کو، اگر ممکن ہو تو زندہ، واپس لانا۔ اگر یرغمالی نہ ہوتے تو اسرائیل کی کارروائیاں غزہ میں کہیں زیادہ آسان ہو سکتی تھیں، چاہے اتنی ہی ظالمانہ کیوں نہ ہوتیں۔ حماس کو شاید سات اکتوبر کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اسرائیل یہودی جانوں کی کتنی قدر کرتا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف اسرائیل کی فوجی منصوبہ بندی پیچیدہ ہوئی بلکہ اسرائیلی عوام میں بھی تقسیم پیدا ہو گئی جیسے کچھ لوگ چاہتے تھے کہ اسرائیلی قیادت جنگ بندی کے لیے زیادہ لچک دکھائے تاکہ قیدیوں کی جلد اور محفوظ واپسی ممکن ہو سکے، جب کہ دوسروں کے لیے حماس کو شکست دینا اور سات اکتوبر کا بدلہ لینا اولین مقصد تھا۔

فوج کے اندر بھی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں جہاں فوج کے سربراہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے غزہ شہر کی کارروائی کی حکمت عملی پر سوال اٹھائے۔ کچھ سابق فوجیوں نے دوبارہ بھرتی ہونے سے انکار کر دیا اور ریزرو فوجیوں نے کہا کہ وہ اس طلبی کو مسترد کریں گے۔ یہ اختلافات اس ملک میں غیر معمولی ہیں جہاں فوجی خدمت کو، مذہبی یہودیوں کے سوا، قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ اختلافات بالآخر نتن یاہو کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں، مگر ابھی نہیں۔ وہ اقتدار میں اس لیے قائم ہیں کہ وہ واحد شخصیت ہیں جو اسرائیلی انتخابات میں بننے والے پیچیدہ اتحادوں کو سنبھال سکتے ہیں۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ اقتدار میں رہنے کی ان کی خواہش اس خدشے کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر وہ عہدہ چھوڑ دیں تو ان پر بدعنوانی کے الزامات میں مقدمہ چل سکتا ہے لیکن ان کی طویل حکمرانی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام قیادت کو بدلنے سے ہچکچاتے ہیں خصوصاً اس وقت جب انہیں لگتا ہے کہ ملک کی سکیورٹی خطرے میں ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا یہ خونی اور بدنظمی پر مبنی کارروائی، جو اب تک حماس کو شکست نہیں دے سکی، نتن یاہو کے کیریئر کو ختم کرنے والی ناکامی ثابت ہو گی، تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ واقعات جنہوں نے اس کارروائی کو جنم دیا، وہی ان کے زوال کا آغاز ہوں گے۔ سات اکتوبر 2023 کے قتل عام کو ایک ایسے ملک میں خفیہ معلومات اور سکیورٹی کی ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھا جائے گا جو ان دونوں حوالوں سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور یہ سب نتن یاہو کے دور میں ہوا۔ یہ قابل فہم ہے کہ وہ عہدے پر اس لیے قائم رہے تاکہ کارروائی شروع کر سکیں اور پھر ہر ناکامی کے باوجود اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔ غزہ کا جو بھی مستقبل ہو، سات اکتوبر ہمیشہ نتن یاہو کے زوال کی شروعات رہے گا۔

میری ڈیجیوسکی 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments