Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بارشیں، سیلاب اور خشک سالی : زمین ہمیں کیا انتباہ دے رہی ہے؟

ذرا تصور کریں کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ آپ کے پاس اپنا گھر چھوڑنے کے لیے صرف 20 منٹ ہیں کیونکہ ایک گلیشیئر آپ کے گھر پر گرنے والا ہے جو اسے دفن کر دے گا یا آپ بے بسی سے دیکھ رہے ہوں کہ آپ کی گاڑی پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ رہی ہے، جو آپ کے بچ نکلنے کی واحد امید تھی۔ گذشتہ دو ہفتوں میں پانچ براعظموں پر بیک وقت شدید بارشوں اور سیلاب نے جیسے قہر ڈھا دیا ہو۔ میری لینڈ، ارجنٹائن، آسٹریلیا، الجیریا میں بڑے پیمانے پر سیلاب آئے اور سوئٹزرلینڈ میں ایک گلیشیئر نے ایک خوبصورت گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سوئٹزرلینڈ سے سڈنی تک بارش صرف جگہ نہیں بدل رہی بلکہ غضب ناک انداز سے برس بھی رہی ہے۔ جیسے جیسے ماحول گرم ہو رہا ہے اس میں زیادہ پانی کو تھامنے اور پھر ایک ساتھ برسانے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے جو آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک ابتدائی اور خطرناک جھلک ہے۔ امریکہ کی ریاست میری لینڈ اور ورجینیا میں اچانک آنے والے سیلابوں نے سڑکیں بہا دیں جہاں کئی سکول ڈوب گئے اور افسوس ناک طور پر ایک 12 سالہ بچہ جان سے گیا۔

سینکڑوں بچوں کو سیلاب زدہ کلاس رومز سے بچایا گیا اور پورے کے پورے شہر آفت زدہ قرار دیے گئے۔ ارجنٹائن میں صرف دو دن میں 400 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی، جس کے باعث دو ہزار سے زائد افراد کا انخلا گیا۔ سڈنی کے شمال میں ہنٹر ویلی علاقے میں ایسی ہی شدید بارش ہوئی، جس میں 10 ہزار سے زائد املاک کو نقصان پہنچا اور پانچ شہری بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی شدید بارشوں کی ایک بڑی سائنسی وجہ ’کلازیئس کلاپیئرون‘ کا اصول ہے، جو بتاتا ہے کہ ماحول کسی وقت میں کتنی نمی سنبھال سکتا ہے۔ ہر ایک ڈگری اضافے کے ساتھ فضا کو تقریباً سات فیصد زیادہ پانی کو تھامنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق ہم اس دہائی کے اختتام تک 1.5 ڈگری درجہ حرارت کا اضافہ عبور کر لیں گے، جس کا مطلب ہے کہ اس نوعیت کی شدید بارشیں اب عام ہونے والی ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی ہر جگہ یکساں نہیں ہو گی۔ آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلز میں جہاں ایک طرف سیلاب آیا وہیں دوسری جانب کسان خشک سالی سے تباہ ہو چکے ہیں۔ میری لینڈ میں بھی گذشتہ ماہ خشک سالی کا الرٹ جاری ہوا تھا اور ارجنٹائن میں جہاں سیلاب آیا وہاں سے تھوڑے فاصلے پر کسان کچھ ماہ قبل شدید خشک سالی کی شکایت کر رہے تھے۔

یہاں تک کہ برطانیہ بھی 150 برسوں میں سب سے خشک موسم بہار کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کا سبب سمندر کی سطح پر چار ڈگری کی ہیٹ ویو ہے۔ اب بات کرتے ہیں سوئس الپس کی جہاں گرمی نے لاکھوں سال پرانا گلیشیئر پگھلا دیا اور بلیٹن کے خوبصورت گاؤں کو منٹوں میں دفن کر دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ حادثہ غالباً برف کے نیچے موجود پگھلتے ہوئے ’پرما فراسٹ‘ کی وجہ سے ہوا، جو گلیشیئر کی دیواروں کو جوڑے رکھتا تھا۔ ماحولیاتی سائنس دان ایڈ ہاکنز نے صاف الفاظ میں کہا: ’سوئٹزرلینڈ کا گاؤں بلیٹن گلیشیئر کے گرنے سے جزوی طور پر دفن ہو گیا، جو انسانوں کی جانب سے پیدا کی گئیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پگھلا۔‘ اور یہ آخری واقعہ نہیں ہوگا۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے تقریباً 40 فیصد گلیشیئرز کا پگھلنا اب یقینی ہو چکا ہے اور یہ تب بھی ہوگا، اگر ہم ابھی سے فوسل فیول کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیں لیکن اگر ہم اسی رفتار سے ماحول کو بگاڑتے رہے تو اس صدی کے آخر تک 75 فیصد گلیشیئرز کسی فارمولا ون ریس کو تیزی سے صفِ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ یہ صرف موسم کی بات نہیں بلکہ زمین خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اور سب سے ڈراؤنی بات یہ ہے کہ ہم سیاسی طور پر، جذباتی طور پر اور نہ ہی معاشی طور پر آنے والی تباہی کے لیے تیار ہیں۔

یوکرین، غزہ اور امریکہ کے سیاسی حالات جیسے بڑے مسائل کی خبروں کے درمیان شاید بہت سے لوگ یہ سوچیں کہ سیلاب اور لینڈ سلائیڈ جیسے واقعات کم اہم کیوں ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ابھی قدرتی آفات اتنی تباہی نہیں لا رہیں جتنی ہم خود ایک دوسرے پر مسلط کر رہے ہیں۔ لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہے اور اب جاگنے اور تیاری کا وقت آ چکا ہے۔ فلڈ گیٹس کھل رہے ہیں اور ہمارے پاس موقع ہے کہ حفاظتی اقدامات کریں اور لاکھوں زندگیاں بچائیں۔ رواں ہفتے شائع ہونے والی گلیشیئرز پر تحقیق نے یہ بھی دکھایا کہ اگر ہم فوری طور پر فوسل فیول کا استعمال چھوڑ دیں تو ہم موجودہ برف کا دو گنا محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس تحقیق کے شریک سربراہ ڈاکٹر ہیری زیکولاری کے الفاظ میں: ’آج کیے گئے فیصلے صدیوں تک کے نتائج پیدا کریں گے۔‘ بدقسمتی سے یہ مسئلہ کاربن جذب کرنے والی مشینوں یا ارب پتیوں کی ماحولیاتی ٹیکنالوجی سے حل نہیں ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تدبیریں کرنے کا وقت گزر چکا ہے، اب وقت ہے کہ ہم خود کو آئینے میں دیکھیں۔ اب صرف وہی پرانے، مشکل، بور اور غیر دلچسپ کام باقی ہیں، جن کی ہم برسوں سے بات کرتے آئے ہیں یعنی فوسل فیول کا استعمال سختی سے کم کرنا، قدرت کی حفاظت کو حقیقی اہمیت دینا اور بارش یا اس کی عدم موجودگی سے نمٹنے کے لیے مزاحمت پیدا کرنا کیونکہ یہ شدید بارشیں، سمندر کی بڑھتی حرارت اور مسلسل قحط ہی لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل ہیں۔ 
اور یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ یہ سب کتنا شدید اور جلد ہو۔

کرس رائٹ 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments