Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شام کی صورت حال اور ترکیہ

مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام جس پر بعث پارٹی اور اسد خاندان جو گزشتہ 50 سال سے زائد عرصے سے برسر اقتدار تھا آخر کار اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ انکے والد نے 29 سال تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔ بشار الاسد اور اُن کے والد علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ یوں ایک سُنی اکثریتی ملک پر ایک ایسے فرقے کے پیروکاروں نے لگ بھگ 50 برس تک حکمرانی کی، سنی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا۔ بشار الاسد کو ہمیشہ ایک ایسے ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھا جائیگا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011ء میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک، 60 لاکھ بے گھر ہوئے اور چار ملین سے زائد پناہ گزینوں نے ترکیہ میں پناہ لی تھی۔ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار جنگجو جن کی قیادت ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کررہی ہے 10 دن کی تیز ترین پیش قدمی کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور بشار الاسد شام سے فرار ہو کر روس کے دارالحکومت ماسکو میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔

ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس، پہلی مرتبہ جبھہ النصرہ کے نام سے 2010ء کے اوائل میں منظر عام پر آئی تھی جو القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم تھی لیکن پھر جولائی 2016ء میں ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا اور پھر سنہ 2017ء میں انہوں نے اپنی اس تنظیم کو ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کے نام سے متعارف کروایا۔ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی تنظیموں میں سیرئین نیشنل آرمی یا ایس این اے شامل ہے جسے ترکیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایس این اے دراصل شمال مغربی شام میں 2017ء میں ترکیہ کی حمایت سے قائم ہوئی تھی اور اس تنظیم نے 2018 ء اور 2019ء میں ترکیہ کی مدد سے علاقے میں موجود ترکیہ کی دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور وائی پی جی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن بھی کیا تھا۔ ترکیہ نے حالات سے استفادہ کرتے ہوئے ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کی قیادت میں جنگجووں کی پیش قدمی کیلئے بڑے پیمانے پرسر مایہ کاری کرتے ہوئے جنگجووں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑے پیمانے پر مضبوط کیا ہے۔ 

ترکیہ کی اس تنظیم کے علاوہ شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے کئی دیگر گروپس بھی موجود ہیں جن میں احرار الشام، اسلامسٹ گروپ 'نور الدین زنگی موومنٹ بھی شامل ہے۔ 11 روز قبل شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ابو الجولانی کو یہ تاریخی کامیابی دس دنوں کے اندر اندر حاصل ہوئی جس کی ترکیہ نے بھر پور طریقے سے نہ صرف حمایت کی بلکہ تمام ممکنہ امکانات کو استعمال کرنے کے اختیارات بھی ابو الجولانی کو سونپ دیے۔ ترکیہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کو اپنی بہت بڑی کامیابی بھی تصور کر رہا ہے اس کا ثبوت صدر رجب طیب ایردوان اور حکومتِ ترکیہ کے سینئر حکام کے حالیہ بیانات ہیں۔ انہوں نے شام کے مخالفین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت شام کے علاقے میں موجود ترکیہ کی دہشت گرد تنظیم پی کے اور وائی پی جی کو بھی اسی طرح علاقے سے نکال باہر کیا جائے گا۔ ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ شام میں اپوزیشن رہنماوں کی کامیابی کو بیرونی دخل اندازی کی نگاہ سے دیکھنا ایک غلطی ہو گی۔ (ترکیہ پردے کے پیچھے رہتے ہوئےشام میں اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے) انھوں نے اپنی اس تقریر میں نہ صرف اتحاد قائم رکھنے، شام کی خودمختاری اور استحکام کی بھی مکمل حمایت کی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہم نے اسد کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے مل کر شام کا مستقبل طے کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن بدقسمتی سے انھوں نے ہمیں کوئی مثبت ردِعمل نہیں دیا تھا۔ بشار الاسد مخالف باغیوں کے ایک دھڑے کے سابق سربراہ عبدالباسط سدعا نے کہا کہ شام میں اپوزیشن گروہوں کے ترکیہ کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں اور ترکیہ ان تمام گروہوں کی ہر ممکنہ مدد بھی کرتا چلا آیا ہے، بشار الاسد مخالف گروہوں کو ہتھیار اور احکامات بھی ترکیہ سے ہی موصول ہوتے رہے ہیں۔ ایران، حزب اللہ اور روس کی طرف سے براہ راست فوجی امداد روک دیے جانے کی وجہ سے بھی شامی فوج کا مورال نمایاں طور پر گرا جبکہ ایران کو حزب اللہ کی مدد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے سےشدید دھچکا لگا ہے اور وہ شام میں بشارالاسد کی حمایت اور مدد کرنے سے قاصر رہا ہے جس کا ترکیہ کی حمایت کردہ اپوزیشن نے بھر فائدہ اٹھایا۔ اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ خوش اسرائیل نظر آتا ہے اس نے 1974 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں شام کے ساتھ طے پائے معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے گولان کے پہاڑی علاقے میں اپنے فوجی دستوں کو بھیجنے کا سلسلہ جاری کر دیا ہے۔ اگر شام میں موجودہ حالات میں کوئی قومی حکومت قائم نہ ہوئی توپھر ملک تین یا چار حصوں میں بٹ سکتا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments