فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس قوانین سے نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرنے اور ٹیکس نہ دینے والوں پر 15 پابندیاں لگانے کا جو فیصلہ کیا وہ معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنے والے وطن عزیز کیلئے نہ صرف وقت کی ضرورت ہیں بلکہ امور مملکت چلانے کے تقاضوں کا لازمی جزو بھی۔ ریاست ایک ماں کی طرح اپنے بچوں کیلئے اپنے وسائل وقف کرتی اور بنیادی حقوق اور سلامتی سمیت تمام امور کی نگہبانی کرتی ہے تو ان سے ان کی آمدنی اور حیثیت کے مطابق ملکی معاملات چلانے کے لئے ٹیکس کی طلب گار بھی ہوتی ہے جس سے انکار یا ہیر پھیر کا طرز عمل دنیا کے کسی ملک میں برداشت نہیں کیا جاتا۔ کئی ممالک میں تو ٹیکس گریزی یا آمدنی و وسائل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرنے والوں کو سنگین جرم کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ جو ممالک آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، ان کی ترقی و خوشحالی کا ایک اہم عنصر وہاں ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر ہے۔ وطن عزیز میں محصولات میں اضافے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے اشرافیہ کے طرز عمل، سرکاری اداروں میں رشوت ستانی، مختلف النوع ٹیکس استثنا اور ایسے عوامل شامل ہیں جن کی آڑ میں ٹیکس گریزی کے عادی عناصر پناہ لیتے رہے ہیں۔
پچھلے برسوں کے دوران معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے جو ترغیبات دی گئیں ان میں فائلرز کے لئے بعض رعایتیں اور نان فائلرز کے لئے کچھ رکاوٹیں شامل تھیں جن کے نتائج توقعات کے مطابق نہیں رہے۔ اب حکومت نے ٹیکس قوانین میں نئی اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ موجودہ فائلرز اور نان کمپلائنٹ شہریوں سے مزید ریونیو حاصل کرنے کے لئے بڑے صنعت کاروں کی حمایت حاصل کر لی گئی ہے۔ تاہم صنعت کاروں کا موقف ہے کہ زراعت پر ٹیکس نہ لگا تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جمود کا شکار رہے گا۔ اسلام آباد میں صنعت کاروں اور تاجروں سے ملاقات میں چیئرمین ایف بی آر وزیر مملکت برائے خزانہ نے جو باتیں بتائیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے برس نان فائلرز سے صرف 25 ارب روپے فیس کی مد میں جمع ہوئے۔ اب نان فائلر کیٹگری ختم ہونے کی صورت میں لین دین پر ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کے لئے معمولی فیس ادا کرنے کا راستہ بند ہو گیا ہے۔ نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرکے ٹیکس نہ دینے والوں پر جو 15 پابندیاں عائد کی جانی ہیں ان میں سے پانچ ابتدائی طور پر لگائی جائیں گی جن میں جائداد ،گاڑیوں، بین الاقوامی سفر، کرنٹ اکائونٹ کھولنے اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری پر پابندیاں شامل ہیں۔
حکومت نے جدید مشین لرننگ اور الگور تھمز کے ذریعے نان فائلرز کی شناخت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ایسے افراد کی نگرانی کی جائے گی جن کی آمدن کی سطح ان کے لین دین سے مطابقت نہیں رکھتی۔ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق یہ اقدامات ایف بی آر کے تبدیلی کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ جسے وزیراعظم کی منظوری مل چکی ہے اور بتدریج نان فائلرز کی 15 اقسام کے ٹرانزیکشنز پابندیوں کی زد میں آجائیں گے۔ جہاں تک مبصرین کا تعلق ہے، ان کا موقف پہلے بھی یہ رہا ہے اور آج بھی ہے کہ مخصوص آمدن سے زائد انکم اور وسائل کے حامل تمام لوگوں کو دیانتداری سے ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔ بااثر افراد کے لئے چھوٹ کی گنجائشیں نکالنے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کا بوجھ ان لوگوں پر پڑتا ہے جو ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ٹیکس گریزی کےاثرات فلاحی اقدامات کی کٹوتی، غربت میں اضافے اور قرض خواہی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ نئی ٹیکس اصلاحات کے نتیجے میں ملکی معیشت استحکام کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھے گی اور قرضوں کے بھاری بوجھ سے نجات میں مدد ملے گی۔
0 Comments