صدر ایردوان گزشتہ چند دنوں سے قومی اسمبلی اور آق پارٹی کے قزل جا حمام کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرنے کے دوران عالمِ اسلام اور خاص طور پر اسلامی رہنمائوں کی جانب سے غزہ اور رفح میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی پر خاموشی اختیار کئے جانے پر اپنے شدید ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ اور رفح کی تباہ کاری کے بعد اب عالمِ اسلام کس چیز کا منتظر ہے ؟ عالمِ اسلام کب تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق غصب ہوتے دیکھتا رہیگا؟ رفح اور غزہ کی تباہ کاری پر ہم اللہ کو کیا جواب دینگے؟ دنیا میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتی جب تک اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسرائیل نے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مغربی ممالک کے علاوہ عالمِ اسلام اور ترکیہ کو بھی اس لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا میں اپنی من مانی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن خدا کی قسم ترکیہ اکیلا بھی رہ گیا تو وہ کسی بھی صورت فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ترکیہ اور عالمِ اسلام کے رہنمائوں کے درمیان یہی فرق ہے جو کسی بھی صورت اسرائیل کو ہضم نہیں ہو پاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں اسرائیل کو جب بھی موقع ملا وہ ترکیہ کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔ 

اسرائیل کی یہ بربریت صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی۔ اسے خون پینے کی عادت پڑ گئی ہے اور جسے خون پینے کی ایک بار لت پڑ جائے وہ ہمیشہ نئے شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسلئے برملا کہہ رہا ہوں اسرائیل پوری انسانیت اور عالمی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامی سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد اس نسل کشی کو فراموش کر دیا جائے گا، ایسا ممکن نہیں۔ صدر ایردوان نے گزشتہ ہفتے اپنے تمام خطابات میں امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتلِ عام میں امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کے بھی ہاتھ رنگے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسپین، آئرلینڈ اور ناروے کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے اس مایوس کن صورتِ حال کے باوجود کچھ امیدیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ اب تک اقوام متحدہ میں 147 ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اقوام متحدہ کے 193 ممبران میں سے 3/4 سےزائد ممالک فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر قبول کر چکے ہیں۔ اسلئے میں ہمیشہ کہتا چلا آیا ہوں’’دنیا پانچ سے عظیم تر ہے‘‘۔

ایردوان نے کہا کہ مہذب مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم، پروفیسرز اور لیکچررز صہیونی لابی کے تمام تر دباؤ اور ظلم و جبر کے باوجود غزہ اور رفح میں نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ سب اس مقصد کیلئے بھاری قیمت بھی چکا رہے ہیں، ان کی آزادی اظہار رائے کو سلب کر لیا گیا ہے۔ مہذب مغربی دنیا کے رہنما مظاہروں اور اجتماعات پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود امریکہ اور یورپ کے’’اصل مہذب عوام‘‘ غزہ کی آواز بن رہے ہیں اور ان کی جانب سے برپا کردہ انقلاب صہیونیت سے پاک دنیا کو جنم دے گا۔ صدر ایردوان نےامریکہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہی کی پشت پناہی اور ہر قسم کے اسلحہ و بارود کی فراہمی کے نتیجے میں اسرائیل اس جدید دنیا میں Vampire اسٹیٹ کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ اس ویمپائر اسٹیٹ کی بربریت کو براہ راست دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ مہذب دنیا کا چیمپئن کہلوانے والے یورپی ممالک کے رہنمائوں کی غزہ اور رفح کی نسل کشی اور قتلِ عام پر خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ ان تمام رہنمائوں کے سامنے ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور یہ رہنما خاموش رہے۔ غزہ میں صحافیوں، ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور یہ رہنما ٹس سے مس نہ ہوئے۔ 

غزہ کی سڑکوں پر شہداء کی لاشیں کتے کھاتے رہے اور اسرائیلی دہشت گرد مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین کی بےحرمتی کرتے رہے، ہسپتال کےلان میں اجتماعی قبریں برآمد ہوتی رہیں لیکن یہ رہنما خوابِ خرگوش ہی کے مزے لیتے رہے۔ صدر ایردوان نے عالمِ اسلام کے رہنمائوں کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق، قوانین، جانوں اور عزتوں کا تحفظ کب کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر دہشت گرد اسلامی جغرافیہ کے مرکز اور قلب میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور عالمِ اسلام خاموش ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ صدر ایردوان نے کہا کہ ترک ہونے کے ناتے میں دنیا بھر کے ہر اس شخص کو یکجہتی کے پیغامات بھیج رہا ہوں جس کے دل میں فلسطین اور غزہ بستا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ ہم نے تمام دستاویزات اور معلومات یکجا کرتے ہوئے عدلیہ کو پیش کر دی ہیں لیکن اسرائیلی انتظامیہ، مغربی ممالک اور صہیونی لابی عدالت اور ججوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دے کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عالمی عدالت کو کسی دبائو میں نہیں آنا چاہئے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ