Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

معذرت فیس بک، اب کوئی آپ کو ’لائیک‘ نہیں کرتا

سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو 20 سال ہو چکے ہیں اور اس حقیقت کو بھول جانا آپ کی غلطی ہو گا۔ بہرحال اگر فیس بک کی کوئی اچھی بات ہے تو یہ کہ وہ آپ کو ان لوگوں کی سالگرہ یاد دلاتی ہے جن کے آپ واقعی قریب ہوا کرتے تھے لیکن برسوں سے یہ رابطہ ختم ہو چکا اور واقعی اس وقت اس کی یہی بات اچھی ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے مارک زکربرگ کو یہ جاننے کا موقع مل سکے کہ جب انہوں نے 2004 میں پہلی بار فیس بک لائیو کا آغاز کیا تو دنیا کو کس قسم کی تباہی سے دوچار کر رہے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے ایک طریقے کے طور پر جو کچھ شروع کیا، وہ بالآخر ڈیٹا سے ذاتی معلومات کے حصول، پروپیگنڈا اور خوف ناک بنیاد پرستی پھیلانے کا سبب بن گئی، جس مسئلے کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں۔ کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ شخص جس نے خواتین کو ایک شے کے طور پر پیش کرنے کے لیے ویب سائٹ بنائی وہ اس طرح کے غلط کام میں سہولت کاری کے قابل ہو گا؟ میں نے خاصی تاخیر کے ساتھ فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بنایا، جب 2009 میں ہمیں سٹوڈنٹ ہاؤس میں اضافی کمرے میں کسی کے رہائش اختیار کرنے کی اشد ضرورت تھی۔

یہ کمرہ ہمارے ایک ساتھی کے تعلیم ترک کرنے کے بعد خالی ہوا۔ تب تک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم مائی سپیس کا سختی کے ساتھ وفادار ہوا کرتا تھا اور مجھے پورا یقین تھا کہ بالآخر اس کے شریک بانی ٹام واپس آئیں گے اور اس گھٹیا نقال کو پچھاڑ دیں گے۔ میرا مطلب فیس بک ہے کیا؟ آپ اپنے ہوم پیچ پر ’ڈیتھ کیب فار کیوٹی‘ نامی راک بینڈ کا گانا نہیں رکھ سکتے۔ ماضی میں جائیں تو ایسے اشارے ملیں گے کہ ممکن ہے فیس بک مکمل طور پر قابل بھروسہ ثابت نہ ہو۔ جس طرح ہمیں کسی دوسرے شخص (’ریان کوگن ڈیٹھ فار کیوٹی کا گانا سن رہے ہیں‘) کا ذکر کرتے ہوئے فیس بک پر پوسٹوں کا آغاز کرتے تھے۔ جس طرح ہم دوسرے لوگوں کی پوسٹوں پر تبصرے کے حصے میں نجی گفتگو شروع کرتے تھے۔ (یو او کے؟‘)۔ تعلقات کا سٹیٹس تبدیل کر کے جس انداز میں ہم اپنے رومانوی پارٹنر کے بارے میں سرعام بات کرتے تھے۔ (’نہیں۔ میں ٹھیک نہیں۔ یہ پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘) کہا جا رہا ہے کہ فیس بک کے اپنے فوائد ضرور تھے۔ یہ تقریبات کی منصوبہ بندی اور لوگوں کو مدعو کرنے کا ایک عمدہ طریقہ تھا۔

یہ ہم خیال لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے اچھا تھا، جن کے ساتھ آپ مخصوص دلچسپیاں اور مشاغل شیئر کرتے تھے۔ اور یہ ان لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے پہلی ویب سائٹ تھی جن کے ساتھ آپ سکول جاتے تھے اور حسد سے اپنی زندگی کا موازنہ ان کی زندگی سے کرتے تھے۔ معذرت چاہتا ہوں میرا مطلب ’پرانے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہنا‘ تھا۔ تاہم زیادہ تر لوگوں کی طرح میں نے واقعی کئی عرصے فیس بک استعمال نہیں کیا۔ سوشل میڈیا کے ایک وقت کے بادشاہ کی تقریباً ہر خصوصیت کو دوسری ویب سائٹس نے تبدیل کیا اور بہتر بنایا۔ اگر میں واضح مقصد ظاہر نہ کرنا چاہتا ہوں تو میں ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاتا ہوں۔ اگر میں کسی سابق پارٹنر کا گلہ کرنا چاہتا ہوں تو میں انسٹاگرام پر جاتا ہوں۔ میں جہاز چھوڑنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ ایک موقعے پر ہمارے تمام والدین اور رشتہ دار سوشل میڈیا کا حصہ بن گئے اور اس فیس بک پر قابض ہو گئے جو کبھی خوبصورت حویلی ہوا کرتی تھی۔ ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں، انکل پیٹ؟ میری تمام خاتون دوستوں کی پوسٹوں کو لائیک کرنا بند کریں۔‘

آج کل فیس بک 50 سال سے کم عمر اور سیاسی طور پر بائیں بازو یا انقلابی خیالات کے مالک کسی بھی شخص کے لیے ناقابل استعمال ہے۔ شاذ و نادر مواقع پر جب میں لاگ اِن کرتا ہوں تو مجھے فوری طور پر قابل اعتراض میمز، ویب سائٹس سے جعلی خبروں اور مصنوعات اور خدمات کے اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں جو حقیقی ہونے کا دکھاوا تک نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ فیس بک کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ مجھ سے باقی رہ جانے والا وہ احترام چھین لے جو میرے اندر ان بڑوں کے لیے ہے، جنہوں نے میری پرورش کی۔ یہ لوگ کرہ ارض کے سب سے زیادہ سادہ اور کم پڑھے لوگوں میں شامل لوگوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ فیس بک پر جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی ڈراؤنے تھیم پارک میں جایا جائے۔ اس کے رنگ پھیکے پڑ چکے ہیں۔ ہر بات عجیب سی ہو چکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں زیادہ دیر تک پلیٹ فارم پر موجود رہا تو مجھے قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا معیار پہلے کے مقابلے میں گر چکا ہے لیکن اپنے عروج پر بھی یہ زیادہ متاثر کن نہیں تھا۔ ہاں ایک بات ہے کہ فیس بک اب بھی اتنی برا نہیں جتنا ایکس یا سابقہ ٹوئٹر ہے۔

رائن کوگن  

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو


Post a Comment

0 Comments