Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

عمران خان ہر بار عوامی عدالت میں سرخرو کیوں ہوتے ہیں؟

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج عمران خان کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا کسی بھی طرح قابلِ فہم نہیں۔ تمام پیش گوئیاں کہ ایک بار اقتدار سے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا سورج جلد غروب ہو جائے گا، غلط ثابت ہوئیں۔ جیسے ہی معاملات ان کے خلاف جانے لگتے ہیں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے ان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو جاتا ہے۔ عوام سے تعلق ہمیشہ سے ان کی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے مئی 2022ء میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لانگ مارچ اس وجہ سے ناکام رہا کیونکہ اتنی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہو پائے کہ جس سے کوئی تبدیلی لائی جاتی۔ اسلام آباد پہنچ کر اچانک عمران خان نے لانگ مارچ ختم کر دیا اور بنی گالا چلے گئے۔ یہ گمان کیا جارہا تھا کہ اگست 2014ء کے نام نہاد سونامی مارچ نے ان کے عروج میں جو کردار ادا کیا، اب وہ ہیجان کی سیاست کام نہیں آئے گی کیونکہ اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل نہیں جوکہ اس سے قبل ان کی سیاست کا اہم عنصر تھی۔ اس کے باوجود عمران خان نے غرور اور دھوکے سے بھری شدید بیان بازی کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا۔

لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے خالی کی جانے والی پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کی باری آئی اور عمران خان نے ان میں سے 15 نشستیں جیت لیں۔ یہ پہلا جھٹکا تھا جس نے یہ عندیہ دیا کہ کچھ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے وہی نشستیں دوبارہ جیتیں جو ان کی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ حلقوں کے نزدیک ان کی اس کامیابی میں حکومت مخالف جذبات نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس سے افراطِ زر اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور عوام کی قوتِ خرید شدید حد تک متاثر تھی۔ پھر اکتوبر 2022ء آیا جس میں قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ان میں سے 7 نشستوں پر عمران خان خود بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور وہ 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار سے ملیر کراچی کی نشست ہار گئے جس پر پی پی پی نے کافی بڑھ چڑھ کر بات کی۔ لیکن بڑے منظرنامے پر تصویر واضح ہو رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ عمران خان جب جب عوام کی عدالت میں گئے ہیں، ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

اسی زعم میں عمران خان نے بڑی چال چلی اور جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں کیونکہ انہیں امید تھی کہ دونوں صوبوں کے ضمنی انتخابات میں وہ درکار آئینی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن یہ اندیشہ کہ انتخابات سے ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا، پی ڈی ایم حکومت انتخابات کو طول دیتی رہی اور بلآخر وہ انہیں سال تک ملتوی کرنے میں کامیاب رہے۔ 8 فروری 2024ء ایک اور موقع تھا کہ عمران خان عوام کے سامنے جائیں اور اس دفعہ انہیں دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ عمران خان جیل میں تھے ، ان کی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا، ان کے کارکنان و رہنما زیرِحراست تھے، پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد کو سیاست چھوڑنے یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جبکہ ان کے سیاسی رہنماؤں کو انتخابات کے لیے ریلیاں تو کیا کارنر میٹنگ کرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے انتخابی نتائج کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہوئی کیونکہ کچھ حلقے جہاں سے عمران خان کے امیدوار جیت رہے تھے، وہاں مخالفین کو جتوایا گیا۔

اس کے باوجود عمران خان کے امیدواروں نے کاسٹ کیے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایک تہائی حاصل کیے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ووٹ بلاک سب سے بڑا ہے۔ نشستیں بھی انہیں زیادہ ملیں کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ووٹرز کو متحرک کرنے کی ان کی حکمت عملی اچھی تھی۔ اس بات سے انکار کرنا یا اس حقیقت کو دبانے کا کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے ووٹرز کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ انہیں جتنا زیادہ دبانے کی کوشش کی جائے گی، عوام اور ان کا تعلق اتنا ہی مضبوط ہو گا اور ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔ کچھ کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ 20 ماہ تک عوام کو جس کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا تھا، اس نے عوام کو عمران خان کی جماعت کی جانب راغب کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عمران خان کے لیے عوام کی پسندیدگی نہیں بلکہ یہ نواز شریف کے لیے ناپسندیدگی (حتیٰ کہ نفرت بھی کہہ سکتے ہیں) ہے جس کا نتیجہ ہم نے عام انتخابات 2024ء میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں دیکھا۔

ہم عمران خان کی طاقتور عوامی حمایت کے حوالے سے بات کر سکتے ہیں لیکن اس کے ختم ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو اپنی سوچ سے بھی زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس لیے اب ان کی اس شاندار سیاسی کہانی کے گہرے اور بنیادی محرکات کا جائزہ لینا اہم بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ناکام معیشت اور بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اہمیت کی حامل ہیں جن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان کو سنجیدہ فیصلے درکار ہیں، اس لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فیصلہ کرنے میں نہ ہچکچائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں مستقل طور پر مہنگی توانائی کا سامنا ہے جبکہ گھریلو گیس کے کم ہوتے ذخائر کی جگہ اب درآمد شدہ ایل این جی لے رہی ہے۔ دوسری بات، قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں چل پائیں گے۔ پاکستان کو ان دو حقائق، توانائی پر مبنی پیداوار کو ترک کرنا اور توانائی کے شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی قرضوں کے بجائے ملکی وسائل پر انحصار کرنے پر بیک وقت کام کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلیاں لانے میں ناکامی کا مطلب مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی افرادی قوت میں ہر سال 20 لاکھ افراد شامل ہورہے ہیں۔

یہ تمام نوجوان ہیں۔ یہ لوگ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ یہی نوجوان تیزی سے ہماری ووٹر لسٹوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے موازنہ کریں تو 2024ء میں 2 کروڑ 20 لاکھ افراد کا ووٹر لسٹوں میں اندراج ہوا جوکہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد کیا تھی۔ پاکستان بدل رہا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے پرانے پیداواری شعبوں کو متروک قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ توانائی کی قیمتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ سیاسی دنیا میں جیسے جیسے نوجوان ووٹرز کے اندراج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کی سرپرستوں کے لیے دشوار حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جو تبدیلی کو اپنا کر اس میں خود کو ڈھال لیں گے وہی سالم رہیں گے، بصورت دیگر ان کا اس نظام میں حصہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔

خرم حسین 

بشکریہ ڈان نیوز

Post a Comment

0 Comments