فیس بک کو امریکی حکومتی عہدیداران کی جانب سے 2 مختلف تاریخ ساز اجارہ داری قائم کرنے کے مقدمات کا سامنا ہے، جن میں بتایا گیا کہ مارک زکربرگ کس حد تک خوفزدہ رہتے ہیں کہ ان کا سوشل نیٹ ورک دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائے۔ مقدمے کے دستاویزات میں شامل اکتوبر 2012 کی ایک ای میل میں لکھا تھا ؛ یہ ہماری پراڈکٹ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جو میں نے 5 سال کے دوران فیس بک کے لیے دیکھا، ہم سب دہشت زدہ ہیں'۔ یہ وہ وقت تھا جب فیس بک دنیا کی سب سے بڑی سماجی رابطے کی ویب سائٹ بن چکی تھی اور انسٹاگرام کو ایک ارب ڈالرز میں خرید چکی تھی۔ وہ خطرہ جس کا ذکر ای میل میں کیا گیا وہ واٹس ایپ تھا، جسے 2014 میں مارک زکربرگ کی کمپنی نے 19 ارب ڈالرز میں خرید لیا تھا۔
امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) اور 48 ریاستوں کے اٹارنی جنرلز کی جانب سے فیس بک کے خلاف دائر الگ الگ مقدمات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ کمپنی منظم طریقے سے اپنے حریفوں کو ختم کر کے غیرقانونی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہے۔ دونوں مقدمات میں مستقبل میں فیس بک کی جانب سے کمپنیوں کی خریداری کو روکنے بلکہ موجودہ ایپس جیسے انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو الگ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مقدمات میں ایسی متعدد ای میلز، میموز اور میسجز کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں فیس بک ملازمین کی جانب سے اپنے کاروبار کے لیے ابھرتے خطرات کو تباہ کرنے کی بات کی گئی۔ فیس بک نے ان مقدمات پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کر کے اس بنیاد پر کامیابی حاصل کرے گی کہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو خرید کر انہیں صارفین کے لیے زیادہ بہتر بنایا گیا ہے۔
یہ دونوں کیسز نئے اور پرانے دستاویزات پر مبنی ہیں جن میں بتایا گیا کہ کس طرح مارک زکربرگ اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ 12 سال کے دوران کس طرح بے رحمی سے فیس بک کو ٹاپ پر رکھا۔ ایف ٹی سی کے مطاب فیس بک کی کمپنیاں خریدنے کی اسٹرٹیجک مہم کا آغاز اس وقت ہوا جب یہ کمپنی 4 سال کی تھی۔ جون میں 2008 میں فیس بک نے سوشل میڈیا مارکیٹ پر بالادستی قائم کر لی تھی اور دیگر کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، ایف ٹی سی نے مارک زکربرگ کے ایک جملے کا حوالہ دیا 'مقابلہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو خرید لیا جائے' اور بہت جلد اسے حقیقی شکل بھی دے دی۔ 2009 میں فیس بک نے ایک ملائیشین کمپنی اوکٹا زین (صارفین کے فون کانٹیکٹس کو خودکار طور پر امپورٹ کرنے والی ایپ) اور فرینڈ فیڈ کو خرید لیا تھا جو کہ متعدد سوشل نیٹ ورکس کے لیے مواد فراہم کرتی تھی اور فیس بک نے دیگر کمپنیوں کی رسای ختم کر دی تھی۔ ریاستی مقدمے میں الزام عائد کیا گیا کہ ان معاہدوں کا مقصد اس وقت کمپنی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والی سائٹ ٹوئٹر کو انہیں استعمال کرنے یا خریدنے سے روکنا تھا، اس موقع پر ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ چند ملین میں اوکٹا زین کو خریدنا اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس ے کچھ حریف کمپنیوں کو کچھ وقت کے لیے سست کیا جاسکتا ہے۔
انسٹاگرام کی خریداری مارک زکربرگ کو جنوری 2012 میں فیس بک کو سرمایہ فراہم کرنے والے فرد نے بتایا کہ انسٹاگرام کی قیمت 50 کروڑ ڈالرز ہو سکتی ہے، تو انہوں نے اس قیمت کو حیران کن قرار دیا، حالانکہ وہ پہلے ہی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ ایف ٹی سی کے مقابق فروری 2011 میں مارک زکربرگ نے اپنے عہدیداران کو کہا تھا کہ ہمیں اس ایپ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں اس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب فیس بک کو اسمارٹ فونز میں جگہ بنانے میں مشکلات کا سامنا تھا اور مارک زکربرگ کو خدشہ تھا کہ اگر انسٹاگرام نے فوٹو شیئرنگ میں قدم جما لیے تو وہ فیس بک کے اہم فیچرز کی نقل شروع کر سکتی ہے۔ جنوری 2012 میں انہیں لگ رہا تھا کہ انسٹاگرام کے منفرد فیچرز اسے ہمارا متبادل بنا سکتے ہیں اور اس موقع پر انہوں نے چیف فنانشنل آفیسر ڈیوڈ ایبرسمین کو کہا تھا 'ہم جو خرید رہے ہیں وہ اصل میں وقت ہے، حریفوں کو خریدنے سے ہمیں ایک سال یا زیادہ وقت مل سکتا ہے تاکہ اس کے مطابق خود کو ڈھال لیں تاکہ کوئی اور اس پیمانے پر ہمارے قریب نہ آسکے'۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا مقصد مسابقت کو ناکارہ بنانا ہے تو مارک زکربرگ نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ جب اس کا معاہدہ ہو گیا تو مارک زکربرگ نے نجی طور پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا کہ جو کمپنیاں مقابل پر آئیں انہیں خرید لیا جائے۔
واٹس ایپ سب سے بڑا خطرہ انسٹاگرام کی خریداری سے قبل ہی فیس بک نے ایک اور شعبے میں پیچھے رہنے پر تشویش ظاہر کر دی تھی، وہ تھی پرائیویٹ میسجنگ، جس کے بارے میں مارک زکربرگ کا ماننا تھا کہ یہ کسی بھی فرد کے فون میں سب سے اہم ایپ ہے۔ ریاستوں کے مقدمے میں بتایا گیا کہ چین کی ایپ وی چیٹ کو دیکھ کر فیس بک کے اندرونی حلقوں میں یہ خیال پیدا ہو چکا تھا کہ اس سے گیمنگ، پیمنٹس اور ایک نئے طرز کے سوشل نیٹ ورک کو تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس وقت واٹس ایپ کو سب سے خطرناک قرار دیا، 2012 سے 2013 کے دوران فیس بک کے 'دہشت زدہ' پراڈکٹ منیجمنٹ ڈائریکٹران عہدیداران کی فہرست میں شامل ہو گئے تھے جو اس میسجنگ ایپ کو سب سے بڑا حریف قرار دے رہے تھے جو کمپنی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ تھا۔
ایف ٹی سی کے مطابق فیس بک کے اندر یہ تشویش بھی پای جاتی تھی کہ واٹس ایپ 'غلط ہاتھوں' میں بھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اگر 2012 میں مارک زکربرگ اس ایپ کے لیے ایک ارب ڈالرز دینے کے لیے تیار تھے تو یہ قیمت 2013 میں 5 سے 6 ارب ڈالرز تک پہنچ گی اور 2014 میں 19 ارب ڈالرز میں اسے خریدنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایف ٹی سی نے ایک منیجر کے میسج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا 'یہ قیمت کچھ نہیں، اس سے ہم نے ممکنہ طور پر اس واحد کمپنی کی روک تھام کر لی جو موبائل پر اگلی فیس بک بن سکتی تھی، کمپنی کی 10 فیصد مارکیٹ ویلیو اس کے سامنے کچھ نہیں'۔ ان مقدمات میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ فیس بک نے ان ایپس کو خریدنے کا فیصلہ اس خیال سے کیا کہ وہ اتنی کامیاب ہو گئی ہیں کہ انہیں خطرناک سمجھا جاسکتا ہے۔
مقدمات کے مطابق مارک زکربرگ نے اس خیال کو مسترد کر دیا تھا کہ اس وقت انسٹاگرام کی چھوٹی سی ٹیم اور نہ ہونے کے برابر آمدنی خریداری کو کمپنی کے لیے خطرناک بناتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایپ کامیابی کی راہ پر گامزن ہے۔ واٹس ایپ کو بھی اگر خریدا نہ جاتا تو یہ فیس بک جیسی کامیابی حاصل کر سکتی تھی۔ مقدمات میں اس نکتے پر بھی توجہ دی گی ہے کہ فیس بک کس طرح ڈیٹا تک رسائی کو اپنے حریفوں کو سزا دینے اور دیگر کمپنیوں کو راستے پر لانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حریف کمپنیوں کو فیس بک سروسز کے سسٹمز کے ساتھ جڑنے سے بلاک کیا جاتا تھا۔
0 Comments