Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کرپشن کی کہانی

احتساب عدالت کا سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی گرفتاری کا حکم 7 روز میں جائیداد کی تفصیل طلب، سابق صدر مملکت آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد، ملزموں پر غیر قانونی طریقے سے گاڑیاں لینے اور منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، نواز شریف جان بوجھ کر پیش نہیں ہو رہے ہیں، ملزمان نے ان تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔ مذکورہ محترم شخصیات پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم رہے ہیں۔ جب یہ کہانیاں میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلتی ہیں تو غیر ملکی پاکستان کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہوں گے؟ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی روح یہ دیکھ کر قبر میں کس تکلیف سے گزرتی ہو گی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ محض ہمارا ملک نہیں بلکہ دیگر بہت سے ملکوں میں بھی کرپشن ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں اعلیٰ سطح کرپشن جس قدر عام اور کھلی ہوئی ہے اس کا اندازہ کر کے حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس ملک کے باشندے مسلمان ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ مسلمان قوم ایماندار فرض شناس اور نیکوکار ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان میں بھی کرپشن عام ہے لیکن ہمارے ملک میں ایلیٹ کلاس دھڑلے سے جس طرح اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کر رہی ہے، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن اس میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ برسر اقتدار ہے اور اشرافیہ اس قسم کے جرائم میں ’’ماسٹر‘‘ ہوتی ہے ۔ اس کے تعلقات ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے حکمرانوں سے ہوتے ہیں اور بااختیار حکمران طبقات خواہ وہ کسی ملک میں ہوں نہ صرف خود کرپٹ ہوتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے کرپٹ حکمرانوں سے ان کے ’’برادرانہ تعلقات‘‘ ہوتے ہیں جو ان کے کام آتے ہیں۔ ہمارے ملک کا حکمران طبقہ پچھلے ستر برسوں سے مسلسل کرپشن کا ارتکاب کرتا چلا آرہا ہے تاہم جن حکمرانوں کا حوالہ ہم نے اس کالم کے آغاز میں دیا ہے، پرانے سلسلے کا نیا ورژن ہے۔ یہ بات بڑی عام ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی چھپائی گئی ہے اور یہ کام حکمرانوں اور دولت مندوں کے آپس کے تعلقات ہی سے ممکن ہو سکتا ہے، چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی سرشت ہی میں کرپشن کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے لہٰذا ایک ملک کا حکمران طبقہ دوسرے دوست ملکوں کے حکمرانوں کے پاس اپنی کرپشن کی کمائی بڑی آسانی سے چھپا سکتا ہے اور یہ کام گزشتہ سات عشروں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ ہو رہا ہے اور دنیا بھر کا قانون اور انصاف کا نظام کرپشن کی اس چین کے سامنے بے بس اور لاچار ہے۔  

کرپشن کے ذریعے حاصل کی گئی اربوں کی دولت غریب طبقات کی محنت کی کمائی ہوتی ہے، جب کرپشن کی اربوں کھربوں کی دولت باہر کے ملکوں میں بھی جاتی ہے تو ملک کے عوام غریب سے غریب تر اور امیر لوگ امیر سے امیر تر ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ امیر لوگوں کے نزدیک اربوں روپے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ، اس لیے یہ کاروبار ان کے لیے نہ نیا ہے نہ حیرت انگیز، جب کہ غریب لوگ اربوں روپے کے نام ہی سے مجسم حیرت ہو جاتے ہیں جن غریبوں کی مہینے بھر کی کمائی صرف پندرہ سولہ ہزار روپے ہو وہ اربوں کی کمائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقات اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کا ڈھول خوب پیٹا جاتا ہے لیکن جمہوریت ہے کہاں؟ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہوتا ہے۔ ماہرین جمہوریت نے جمہوریت کی تعریف اس طرح کی ہے ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ کیا دنیا کی جمہوریتوں میں کوئی جمہوریت اس تعریف پر پوری اتر سکتی ہے؟

سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جمہوریت میں عوام بے بس اور اقتدار سے دور ہوتے ہیں چونکہ اب ملکوں میں کروڑوں عوام رہتے ہیں اس لیے ’’نیابتی‘‘ جمہوریت کا کھیل کھیلا گیا یعنی منتخب عوام کی حکومت، اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ منتخب لوگوں میں غریب عوام شامل نہیں ہوتے کیونکہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کی رقم درکار ہوتی ہے اور جس غریب کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو وہ بے چارہ غریب کروڑوں کی رقم کہاں سے لا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت جس میں غریب عوام کا کام پانچ سال میں ایک بار اعلیٰ طبقات کے حق میں ووٹ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، ہماری دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ زرعی معیشت سے جڑا ہوا ہے، دیہی علاقوں کے عوام آج بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ انتخابات میں جاگیردار، وڈیرے غریب عوام کے ووٹ سے حکمران بن جاتے ہیں اور عوام پر وہ حکومت کرتے ہیں جس کا مزہ ہمارے عوام چکھ رہے ہیں۔

پاکستان میں اب پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اور اس جماعت اور عمران خان کے حامی سمجھتے اور کہتے بھی ہیں کہ یہ مڈل کلاس کی جماعت ہے، اور اس کلاس کی حکومت ملک میں پہلی بار آئی ہے۔ میں خود بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے امرا اور اپوزیشن کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔
اپوزیشن مڈل کلاس کی اس حکومت گرانے کے لیے ہزار جتن کر رہی ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ اب عوام انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ تاہم امرا اور اپوزیشن عوام کے ذہنوں کی تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں اور اپنے غلام ورکروں کو اکٹھا کر رہی ہے جو عوام میں ان کے ہمدرد بن کر جائیں گے اور سابق کرپٹ سیاسی جماعتوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کریں گے۔ یہ کام دولت کے ذریعے ہو گا، تیاری جاری ہے جیسے ہی تیاری مکمل ہو جائے گی، انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے گا۔

ظہیر اختر بیدری  

بشکریہ ایکسپریس نیوز


Post a Comment

0 Comments