Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایا صوفیہ عدالتی فیصلے کے بعد مسجد بن گیا، ترک صدر اردوان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے عدالت کی جانب سے جدید ترکی کے بانی کے ایا صوفیہ میوزیم بنانے کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے بعد اس کو مسجد قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو نماز کے لیے کھولنے اعلان کر دیا۔ خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق طیب اردوان عالمی سطح پر ایا صوفیہ کی حیثیت تبدیل نہ کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود عدالتی حکم آتے ہی مسجد کا اعلان کر دیا۔ طیب اردوان نے کہا کہ 'ایا صوفیہ مسجد کی انتظامیہ کو مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے حوالے کرنا کا فیصلہ کیا گیا ہے اور عبادت کے لیے کھلی ہو گی'۔ اس سے قبل اردوان نے یونیسکو کے عالمی ورثے کی جگہ کو مسجد کے طور پر بحال کرنے کی تجویز دی تھی، جو بازنطینی عیسائیوں اور عثمانی خلافت کے درمیان مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتا تھا اور اب ترکی کا سیاحوں کی سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بننے والا مقام بن چکا ہے۔ 


چھٹی صدی عیسوی میں بننے والی عمارت کی حیثیت تبدیل کرنے کی مخالفت کرنے میں امریکا، یونان اور چرچ کے رہنما سرفہرست تھے اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔ واضح رہے کہ جدید ترکی کے سیکیولربانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے اپنی حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں ہے ایا صوفیہ مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا انقرہ میں ترکی سپریم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 'اس جگہ کو مسجد کے لیے تعین کر دیا گیا تھا اس لیے اس کو قانونی طور پر کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے'۔ فیصلے میں کمال اتاترک کے دستخط شدہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ '1934 میں کابینہ کی جانب سے مسجد کو ختم کر کے اس کو میوزیم قرار دینا قانون کے زمرے میں نہیں ایا'۔ 

ایا صوفیہ کے لیے 16 برسوں سے قانونی جنگ لڑنی والی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ایا صوفیہ عثمانی رہنما کی جائیداد تھی اور انہوں نے شہر پر 1453 میں قبضہ کر لیا تھا اور 900 سال پرانے بازنطینی چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا تھا انہوں نے کہا کہ اردوان ایک سچے مسلمان ہیں اور انہوں نے گزشتہ برس مقامی انتخابات سے قبل عمارت کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے شروع ہونے والی مہم کی حمایت کی تھی۔ عثمانی خلیفہ نے مسجد کے مینار تعمیر کروائے تھے اور عمارت اندر قدیم عیسائیوں کی یادگار کے ساتھ خلفائے راشدین کے نام عربی میں تحریر کیے تھے۔  تاہم ترک ایسوسی ایشن نےایا صوفیہ مسجد کو بحال کرنے اور عمارت کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی اور ان کا مؤقف تھا کہ مسلم اکثریتی ملک ترکی کی حیثیت کا بہترین مظہر ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز

Post a Comment

0 Comments