Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سقوطِ ڈھاکہ کا سبق

کتنی عجیب بات ہے کہ 16 دسمبر کا دن جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کے لیے انتہائی اہم بھی ہے اور اپنے اندر متضاد معنی اور جذبات بھی رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے جہاں یہ اُن کی آزادی کا دن ہے، وہاں پاکستانیوں کے لیے یہ دن تاریخ کے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک بڑے ہجوم کی موجودگی میں پاکستانی فوج کے مشرقی بازو کے کمانڈر جنرل نیازی نے بھارتی فوج کے کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے بعد ملک کے دونوں حصے ایک دوسرے سے عملی اور قانونی طور پر الگ ہو گئے تھے۔ اور یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے میں بنگالیوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور ہر طرح کی قربانیاں دی تھیں۔

آزادی کے بعد اس نئے ملک میں بنگالی اکثریت میں تھے اور جمہوری طور پر پاکستان کی اصل نمائندگی ان کے پاس تھی لیکن آزادی کے صرف 24 سال کے بعد ملک کی اسی اکثریت نے مغربی حصے کی اقلیتی آبادی سے الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے اپنا ایک آزاد ملک قائم کر لیا۔ قوموں کی تاریخ میں 24 سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے، مگر اتنی کم مدت میں ایک ملک کا ٹوٹ جانا اپنے اندر کئی سوال رکھتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ اچانک رونما نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے برسوں کی محرمیوں اور ناانصافیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ ملک کے دونوں بازوؤں کے درمیان فاصلوں کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب اردو کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ عددی اکثریت کی بنیاد پر بنگالی اپنی زبان کو قومی زبان کے درجے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے چلائی جانے والی تحریک نے پاکستان کے دونوں حصوں کی علیحدگی کی پہلی اینٹ رکھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی ملک کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں میں سیاسی بد انتظامی اور اقتدار کے ایوانوں میں رسہ کشی سے بنگالیوں کو یہ احساس ہوا کہ انہیں جائز سیاسی حق نہیں دیا جارہا اور وہ آزاد ہونے کے بعد بھی غلامی ہی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان جذبات کو ابھارنے میں مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے ان اعلیٰ اتنظامی عہدے داروں نے بھی اہم کردار ادا کیا جنہیں مشرقی بنگال میں تعینات کیا جاتا تھا۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بنیادی جمہوریت کے نام سے ایک نیا سیاسی نظام متعارف کرایا۔ جن میں جمہوری اصولوں کو نظر انداز کر کے پارلیمنٹ میں ملک کے دونوں حصوں کی نمائندگی مساوی کر دی گئی۔ ایوب خان نے اس کا یہ جواز پیش کیا کہ ملک کے ایک حصے کی آبادی اور دوسرے کا رقبہ زیادہ ہے لیکن بنگالیوں کو یہ احساس ہوا کہ اُنہیں سیاسی طور پر دبانے کی سازش کی جارہی ہے۔

بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت عوام کے پاس پارلیمنٹ میں اپنے نمائندے براہ راست چننے کا اختیار نہیں تھا بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب چند چند ہزار لوکل باڈیز کے منتخب نمائندے کرتے ہیں جن پر حکومت کا اثر انداز ہونا آسان تھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی شکست تھی۔ دریائی ڈیلٹاؤں اور ساحل سمندر کے ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے مشرقی بنگال اکثر سمندری طوفانوں، سیلابوں اور شدید بارشوں کا نشانہ بنتا رہتا تھا۔ جن سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوتا تھا۔ متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ناکافی سرکاری کوششوں نے بھی محرومی کے احساس میں مزید اضافہ کیا۔ اس دور میں مغربی حصے میں کپاس اور مشرقی پاکستان میں پٹ سن اہم نقد آور فصلیں تھیں، جن کا زیادہ تر حصہ برآمد کر دیا جاتا تھا۔ 

ملک کے مشرقی حصے سے پارلیمنٹ کے ارکان اور دیگر افراد جب اسلام آباد آکر وہاں بلند و بالا عمارتیں اور کشادہ سڑکیں دیکھتے تھے تو ان کے ذہنوں میں بنگال کے انفراسٹرکچر کی خستہ کیفیت اور آبادیوں کی زبوں حالی لہرانے لگتی تھی اور وہ یہ سوچنے لگتے تھے پٹ سن سے حاصل ہونے والی زرمبادلہ کی دولت مغربی حصے پر لٹائی جا رہی ہے۔ 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی۔ اس موقع پر مشرقی حصے کی حفاظت کے لیے کوئی قابل ذکر انتظام موجود نہیں تھا، جس سے محرومی کے ساتھ عدم تحفظ کے احساس بھی پیدا ہوا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو یہ شکایت بھی تھی کہ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں اُنہیں اُن کا جائز حصہ نہیں مل رہا، خاص طور پر دفاعی اداروں میں تو ان کی نمائندگی بہت ہی کم ہے۔ 

اسی دوران عوامی لیگ کے ایک سرکردہ راہنما شیخ مجیب الرحمن کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ شیخ مجیب نے اپنے سیاسی منشور میں چھ نکات پیش کیے تھے ، جو مرکزی حکومت کے اختیارات پر شدید ضرب لگاتے تھے۔ مغربی حصے میں یہ تاثر عام تھا کہ ان نکات کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ہے، اس لیے وہاں پر چھ نکات کی شدید مخالفت کی گئی، جب کہ بنگال میں انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔  ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کی باگ ڈور جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں آگئی۔ انہوں نے ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کرائے، جس میں مشرقی حصے میں شیخ مجیب کی جماعت نے مکمل کامیابی حاصل کی جب کہ مغربی حصے میں اُنہیں کوئی نمائندگی نہ ملی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کی سیاسی قیادتیں دونوں حصوں کی نمائندہ نہ رہیں۔

مغربی حصے میں پارلیمنٹ میں اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن اپنے نکات میں کچھ لچک پیدا کریں، لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوئے۔ اور ملک کے لیے نئے آئین کی تیاری کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔ ادھر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ شدت پسندوں کی جانب سے مغربی پاکستان سے آئے ہوئے ملازموں، کارکنوں اور کاروباری افراد پر حملے شروع ہو گئے۔ 23 مارچ 1971ء کو یومِ پاکستان کے موقع پر علیحدگی پسندوں نے ہر جگہ بنگلہ دیش کے پرچم لہرائے اور تقریبات منقعد کیں۔ اس عرصے میں غیر بنگالیوں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اُنہیں ہلاک کیا گیا اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا نشانہ مغربی پاکستان سے آئے ہوئے کئی سیکیورٹی اہل کار اور ان کے خاندان بھی بنے۔ 

یہی وہ لمحہ تھا جب جنرل یحیی خان نے فوجی کارروائی کے ذریعے امن و امان قائم کرنے کا حکم دیا۔ فوج نے شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا اور باغیوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی ۔ کئی مہینوں تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں بڑی تعداد میں بنگالی ہلاک ہوئے ہوئے اور لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے سرحد پار کر کے بھارت چلے گئے۔ بھارت میں عوامی لیگ کی جلاوطن قیادت نے 'مکتی باہنی' کے نام سے عسکری تنظیم قائم کر کے پاکستانی فوجیوں پر حملے شروع کر دیے۔ جب فوج ان کا پیچھا کرتی تو وہ سرحد پار بھاگ جاتے، جب کہ سرحد پر بھارتی فوج پاکستانیوں کا راستہ روکتی۔ جس سے سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا۔

اسی سال دسمبر میں اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارتی فوج کا دباؤ کم کرنے کے لیے جنرل یحیی خان نے مغربی پاکستان کا محاذ کھول دیا جس سے بھارت کو اپنے فوجی دستے مشرقی پاکستان میں داخل کرنے کا جواز مل گیا۔ پاکستان کی فوج زیادہ دنوں تک مقابلہ جاری نہ رکھ سکی کیونکہ اسے بھارتی فورسز اور بنگالیوں دونوں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اور پھر 16 دسمبر کا وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب جنرل نیازی نے پلٹن کے میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔ اس جنگ میں پاکستان کے نوے ہزار سے زیادہ فوجی اور سویلین عہدے دار جنگی قیدی بنا لیے گئے جن کی واپسی ایک طویل عرصے کے بعد ممکن ہوسکی۔ سقوط ڈھاکہ کے 49 سال بعد آج پھر یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ اس واقعے سے ہم نے کیا سیکھا؟

بشکریہ وائس آف امریکہ

Post a Comment

0 Comments