Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

روس اور پاکستان کے بہتر ہوتے تعلقات سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا ؟

خارجہ اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو خوش آئند قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ناراضی کو خاطر میں نہ لائے اور ماسکو سے تعلقات کو مزید بہتر کرے۔ ماضی میں پاکستان کا سخت حریف سمجھا جانے والا روس اب اسلام آباد سے بہتر تعلقات کا خواہاں نظر آتا ہے۔ روس نے نہ صرف سٹیل مل کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے بلکہ پاکستان کے توانائی اور ریلوے کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری اور معاونت کرنے میں بھی دلچسپی لی ہے۔ حال ہی میں روس کے ایک تجارتی وفد نے وزیر تجارت اور صنعت ڈینس مینڈرو کی قیادت میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ اس سال کے شروع میں روس نے توانائی کے پاکستانی شعبے میں چودہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

حالیہ ملاقاتوں کے پیش نظر یہ امید کی جا رہی ہے کہ روسی کمپنیاں کراچی سے لاہور تک گیس کی پائپ لائن بچھائیں گی، جب کہ دونوں ممالک دفاعی شعبے میں بھی تعاون بڑھائیں گے۔ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان نے اس امر کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''سرد جنگ ختم ہو گئی ہے اور اب ہمارے روس سے تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن میں اس کا کیا رد عمل ہو گا اور روس سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے چاہییں تاکہ خطے میں امن و استحکام آ سکے۔‘‘ کئی ناقدین کا خیال ہے کے سرد جنگ کے دوران پاکستان نے مغرب کی محبت میں بلا وجہ روس سے دشمنی مول لی۔ اسلام آباد نے سیٹو اور سینٹو جیسے مغربی معاہدوں کا حصہ بن کر ماسکو کو اشتعال دلایا اور ایک مرحلے پہ سوویت روس نے پاکستان کو عسکری طور پر نشانہ بننانے کا سوچا۔

یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر ذاکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ بھارت کے برعکس پاکستان نے سارا انحصار مغربی ممالک پر کیا اور آج بھارت فائدے میں ہے، جبکہ پاکستان کو اس سے نقصان ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نجم الدین نے کہا، ''پاکستان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ کسی ایک بڑی طاقت پر انحصار کرنا نہیں چاہتا۔ اسلام آباد کو معلوم ہے کہ روس کا جھکاؤ اب مشرقی ممالک کی طرف ہو رہا ہے اور اس نے اپنے سکیورٹی دستاویز میں بھی اس جھکاؤ کا اظہار کیا ہے. لہذا پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی مشقیں بھی ہوئی ہیں جبکہ دفاع کے معاملے پر بھی دونوں ممالک میں بات چیت جاری ہے۔ روس کا کئی علاقائی تنظیموں میں اہم کردار ہے۔

پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے اور پاکستانی پالیسی سازوں کے خیال میں استحکام کے لیے روس بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘ مغرب سے صرف شمشاد احمد خان کو ہی گلہ نہیں بلکہ پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگار بھی مغرب سے نالاں نظر آتے ہیں۔ تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ مغرب نے ہمیشہ صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے۔ اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مغرب کو ہماری قربانیوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں قربان کی ہیں۔ ہمارا کئی بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ امریکا نے ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ہمیں صرف لیکچر دیے اور دھمکی دی اور جب عمران خان نے حالیہ دورہ کیا اس دوران بھی باتیں کی گئیں کہ امریکا پاکستان کی مدد کرے گا۔ لیکن یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ تھا۔ 

ہم نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو سی پیک پر اعتراض ہے تو آپ بھی اس میں حصہ دار بن جائیں لیکن وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو ایسی صورتحال میں پاکستان ہر اس ملک کی طرف دیکھے گا جو پاکستان کے دفاعی شعبوں کی صلاحیت کو بڑھا سکے اور پاکستان کی مالی مدد کر سکے۔‘‘ جنرل امجد کا شکوہ تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکا کی مدد کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی امریکا کا ساتھ دیا، لیکن امریکا ہمیشہ نئی دہلی کا ساتھ دیتا ہے اور بھارت جب بھی پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرتا ہے تو امریکا اس کا ہمنوا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ان کا مزید کہنا تھا، ''میرا خیال ہے کہ روس اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر نئی دہلی کو پریشانی ہو گی۔ لیکن ہم انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ امریکا سے اپنے تعلقات بہتر کر رہے تھے اور امریکا کے قریب ہو رہے تھے تو ہم نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ہر ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس طرح کی پالیسی اپنے لیے بہتر سمجھے، اسے اپنائے۔ میرا خیال ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان تعاون کی یہ بات اور تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ خطے میں استحکام آسکے۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Post a Comment

0 Comments