Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں، بریت کی بھارتی درخواست مسترد کر دی گئی

ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے صدر اور جج عبدالقوی احمد یوسف بھارتی اپیل پر فیصلہ پڑھ کر سنایا جب کہ اس کارروائی میں عالمی عدالت کا 15 رکنی فل بینچ بھی موجود تھا، بینچ میں پاکستان کا ایک ایڈ ہاک جج اور بھارت کا ایک مستقل جج بھی شامل تھا، اٹارنی جنرل انور منصور خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم فیصلہ سننے کے لیے دی ہیگ میں موجود تھی۔ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی بریت اور رہا کر کے بھارت کے حوالے کرنے سے متعلق بھارتی درخواست کو مسترد کر دیا، کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔ عالمی عدالت انصاف میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ اصلی قرار دیا گیا۔

جج عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور دونوں ممالک پورے کیس میں ایک بات پر متفق رہے کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے، بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگی جب کہ پاکستان نے بھارتی مطالبے پر 3 اعتراضات پیش کیے پاکستان کا موقف تھا کہ جاسوسی اور دہشتگردی گردی کے مقدمے میں قونصلر رسائی نہیں دی جاتی اس لیے ویانا کنونشن کا اطلاق کلبھوشن کیس پر نہیں ہوتا۔ عدالت نے بھارت کی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر تینوں پاکستانی اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دے دی، فیصلے کے مطابق ویانا کنونشن اس کیس پر لاگو ہوتا ہے، ویانا کنونشن جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا، آرٹیکل 36 میں جاسوسی کے الزام کی بنیاد پر قونصلر رسائی روکنے کی اجازت نہیں اس لیے کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان قونصلر رسائی دے۔

عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی آخری سماعت 18 فروری سے 21 فروری تک جاری رہی تھی، بھارتی وفد کی سربراہی جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل نے جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کی تھی۔ سماعت کے دوران بھارت کی طرف سے ہریش سالوے نے دلائل پیش کیے جبکہ پاکستان کی طرف سے خاور قریشی نے بھرپور کیس لڑا تھا۔ 18 فروری کو بھارت نے کلبھوشن کیس پر دلائل کا آغاز کیا اور 19 فروری کو پاکستان نے اپنے دلائل پیش کیے۔ 20 فروری کو بھارتی وکلا نے پاکستانی دلائل پر بحث کی اور 21 فروری کو پاکستانی وکلا نے بھارتی وکلا کے دلائل پر جواب دیئے جب کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد عالمی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

Post a Comment

0 Comments