Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سڈنی اوپیرا ہاؤس : جدید طرز تعمیر کی عمدہ مثال

تین اطراف سے سمندر میں گھرا سڈنی اوپیرا ہاؤس بیسویں صدی کی سب سے معروف اور انوکھی عمارتوں میں سے ہے۔ اسے ڈنمارک کے ماہرِ تعمیرات جورن اُٹزون نے ڈیزائن کیا۔ تعمیر کے دوران عمارت تنازعات کی زد میں بھی رہی۔ 2007ء میں اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا اور یوں اُٹزون وہ دوسرے فرد بن گئے جن کی ڈیزائن کردہ عمارت کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔ انہیں 2003ء میں اس عمارت پر ’’پریٹزکر آرکیٹکچر ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا جو فن تعمیرات کا سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ 4.4 ایکڑ پر مشتمل یہ عمارت جدید طرز تعمیر کی ایک عمدہ مثال ہے۔ 

عمارت کی سپورٹ کے لیے کنکریٹ کے سیکڑوں ستون ہیں جو سمندر کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ سب سے اونچی چھت سطح سمندر سے 67 میٹر بلند ہے۔ عمارت کو دور سے دیکھا جائے تو اس پر خول نما ڈھانچے نظر آتے ہیں جو اسے منفرد پہچان عطا کرتے ہیں۔ دراصل اس ایک نظر آنے والی عمارت میں پرفارمنگ آرٹس کے بہت سے وینیوز ہیں جہاں سالانہ سیکڑوں پرفارمنسز ہوتی ہیں اور لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ سڈنی اوپیرا ہاؤس کے پرفارمنگ وینیوز میں سے کچھ یہ ہیں: 

کنسرٹ ہال : اس میں 2679 نشستیں ہیں یہاں بڑے پروگرام ہوتے ہیں۔ 

جوآن سودر لینڈ تھیٹر: یہ حصہ تھیٹر کے لیے ہے اوراس میں 1507 نشستیں ہیں۔ 2012ء تک اسے اوپیرا تھیٹر کہا جاتا تھا۔ 

ڈراما تھیٹر : تھیٹر کے لیے تعمیر شدہ اس حصے میں 544 نشستیں ہیں۔ 

اٹزون روم : یہ پارٹیز، کارپوریٹ فنکشنز اور چھوٹی پراڈکشنز (جیسے موسیقی) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عمارت میں ریکارڈنگ سٹوڈیو، کیفے، ریسٹورنٹ وغیرہ بھی ہیں۔ عمارت کی منصوبہ بندی 1940ء کی دہائی میں شروع ہوئی تاکہ بڑی پرفارمنسز کے لیے کوئی موزوں عمارت میسر آ سکے۔ اس وقت سڈنی ٹاؤن ہال موجود تھا جو چھوٹا پڑتا تھا۔ ڈیزائن کے انتخاب کے لیے ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کیا گیا۔ 32 ممالک کے ماہرینِ تعمیرات نے 233 ڈیزائن پیش کیے۔ مقابلہ جیتنے والے کا اعلان 1957ء میں ہوا اور یہ اُٹزون تھے۔ سڈنی اوپیرا ہاؤس سے قبل وہ بہت سے مقابلے جیت چکے تھے لیکن ان کا کوئی ڈیزائن تعمیر نہیں ہوا تھا۔

جب انہوں نے سڈنی اوپیرا ہاؤس کا ڈیزائن پیش کیا تو اسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ابتدا میں ڈیزائن کے مطابق کام اچھے انداز سے جاری رہا لیکن وقت کے ساتھ مقامی حکومت کی جانب سے اس میں تبدیلیوں پر اصرار کیا جانے لگا۔ وہ اخراجات اور تعمیر پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے لگی۔ ڈیزائن ٹیم کے ساتھ اس کی کشیدگی بڑھنے لگی۔ اس کی وجہ سے کئی بار تاخیر ہوئی اور تکنیکی مسائل بھی پیدا ہوئے۔ 1965ء کے آسٹریلوی انتخابات میں لبرل پارٹی برسرِ اقتدار آئی اور نیو ساؤتھ ویلز کی سربراہی رابرٹ آسکن کے ہاتھ آئی جس کے بعد عمارت کی تعمیر سے وابستہ مختلف شعبوں کے مابین تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ 

آسکن عہدہ سنبھالنے سے قبل اس منصوبے کے ناقد تھے۔ وقت کے ساتھ کشیدگی اتنی بڑھی کہ 1966ء میں اٹزون نے استعفیٰ دے دیا۔ اس افسوس ناک امر کے باوجود عمارت کے ڈیزائن نے جدید فن تعمیر میں نئے در وا کیے۔ یہ ان اولین عمارتوں میں سے ہے جن کے ڈیزائن میں کمپیوٹر سے مدد لی گئی۔ اس میں استعمال ہونے والی تکنیک کو بہت سے دیگر نامور ماہرین تعمیرات نے اپنایا۔ اس کے لیے تیار ہونے والا ائیرکنڈیشنر اس وقت آسٹریلیا میں سب بڑا تھا۔ عمارت کا افتتاح ملکہ الزبیتھ دوم نے 20 اکتوبر 1973ء کو کیا۔ 

اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن اس کے ڈیزائنر اٹزون کو نہ مدعو کیا گیا اور نہ ہی ذکر کیا گیا۔ البتہ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں انتظامیہ نے ان سے رابطوں کو بحال کیا۔ عمارت کی انتظامیہ مستقبل میں کی جانے والی تبدیلیوں میں ڈینش ماہرتعمیرات کو شامل کرنا چاہتی تھی۔ 2004ء میں عمارت کے ایک حصے کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ یہ وہ عمارت ہے جہاں بہت سے مشہور فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ ، اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ عمارت آج بھی دعوت نظارہ دیتی ہے۔  

رضوان عطا

Post a Comment

0 Comments