انیسویں ویں صدی میں جب بنی نوع انسان کے علم میں یہ بات آئی کہ لوہے کے بڑے بڑے ڈھانچوں کو جوڑ کر ایک عمارت کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے تو یورپ میں لوہے کے بڑے ڈھانچوں کی حامل عمارات مکمل ہوئیں ۔ ایک ایسے فولادی ٹاور کی تعمیر کا خیال جس کی اونچائی 304.8 میٹر (1000 فٹ) ہو پہلے پہل کارنس مین رچرڈ ٹریوی تھک کے ذہن میں سمایا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ مظاہرہ بھی کر کے دکھایا تھا کہ بار برداری کا کام لینے کے لئے بھاپ کے انجن کو کس طرح ریل کی پٹریوں پر چلایا جا سکتا ہے ۔ اس ٹاور کے خیال کو اس وقت تک تقویت حاصل نہ ہو سکی جب تک انجینئر الیگزینڈر گسٹاوو ایفل منظر عام پر نہ آیا۔
ایفل دنیا کا ایک مشہور و معروف ماہر تعمیرات تھا ، کئی فولادی تعمیرات کی وجہ سے وہ اس شعبے میں کافی مشہور تھا۔ 1889ء میں جب پیرس میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا اس وقت ایفل کو عظیم الشان نظارہ پیش کرنے والی تعمیر سر انجام دینے کا مشورہ دیا گیا۔ لہٰذا اس نے ایک ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا۔ 1886ء میں اس ٹاور کی تعمیر کی تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اس کی بنیادیں پتھروں پر رکھی گئی تھیں۔ 40 ڈرافٹسمین اس ٹاور کے مختلف حصوں کی تفصیلی ڈرائینگ تیار کرنے میں مصروف تھے اور ایک فیکٹری ان فولادی حصوں کی تیاری کے لئے روبہ عمل ہو چکی تھی۔ وہ مئی 1889ء میں افتتاح کا وقت قریب آنے پر ٹاور کی تعمیر کا کام زیادہ جوش، جذبے اور ولولے کے ساتھ سر انجام دینے لگا ۔
سردی اپنے جوبن پر تھی ،اس کے باوجود سینکڑوں کاریگر لوہے کے گارڈروں کو آپس میں جوڑنے میں مصروف تھے ۔ اس کام کو مکمل کرنے کیلئے ڈیوٹی کے اوقات کار سے زائد اوقات تک کام سر انجام دے رہے تھے۔ پہلے دیو قامت فولادی بنیاد نصب کی گئی ۔ 579 میٹر (190 فٹ) کی بلندی پر ایک پلیٹ فارم بنایا گیا۔ اس پلیٹ فارم پر 115.8 میٹر (380 فٹ) کی بلندی پر ٹاور کا دوسرا اور 272.7 میٹر (895 فٹ) کی بلندی پر تیسرا پلیٹ فارم بنایا گیا۔ اس کے اوپر ٹاور کا گنبد اور مینار میں لفٹیں نصب کی گئیں ۔ مارچ 1889ء میں ایفل نے اس پر فرانسیسی جھنڈا لہرایا۔ اس طرح دنیا کے مشہور ترین فولادی ٹاور کی تعمیر کا کام اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب تک لاکھوں لوگ اس ٹاور کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ ٹاور فرانس کی عظمت کی علامت بن چکا ہے۔ ایفل ٹاور کے بغیر پیرس بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیرس کے بغیر فرانس۔
0 Comments