Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

عید پر طالبان اور افغان فوجی بغل گیر ہو گئے

افغانستان میں عید کے دن کئی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور طالبان نے مل کر نماز عید ادا کی۔ غیر مسلح طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے اور انہوں نے عید کے علاوہ ’غیرمعمولی جنگ بندی‘ کی خوشیاں بھی منائیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں عید کے دن خوشی کی ایک غیرمعمولی کیفیت دیکھی گئی۔ عید کی تین دن کی چھٹیوں کے دوران طالبان جنگجوؤں نے بھی جنگ بندی کا اعلان کر رکھا ہے، جو افغان حکومت کی طرف سے محدود فائر بندی کے اعلان کے بعد کیا گیا تھا۔ طالبان نے کہا تھا کہ اس جنگ بندی کے باوجود غیر ملکی فورسز پر حملے نہیں روکے جائیں گے۔

افغانستان کے نائب وزیر داخلہ مسعود عزیزی نے بتایا کہ اس جنگ بندی کو مانیٹر کیا جا رہا ہے اور ’خوش قسمتی سے کوئی نیا حملہ نہیں ہوا‘۔ کابل حکومت کی طرف سے اعلان کردہ فائر بندی آئندہ بدھ کے روز تک مؤثر رہی گی، جس میں صرف طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی جبکہ داعش سمیت دیگر مسلم انتہا پسند گروپوں کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رہیں گی۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عید کے دن طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور عید کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ لوگر صوبے، کابل کے جنوب، زابل اور وردک میں طالبان اور سکیورٹی فورسز نے مل کر عید کی نماز ادا کی اور خوشیاں منائیں۔ ہلمند، قندھار اور زابل نامی صوبوں میں حکام نے بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کوئی پرتشدد واقعہ رونما نہیں ہوا۔

گزشتہ سولہ برسوں سے جنگ کے شکار ہندوکش کے اس ملک میں طالبان کی طرف سے پہلی مرتبہ لچک دکھائی گئی ہے، جسے افغانستان میں قیام امن کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ زابل کے رہائشی قیس لیوال نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ سب سے زیادہ پرامن عید ہے۔ میں خود کو محفوظ تصور کر رہا ہوں۔ اس خوشی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ جلال آباد میں درجن بھر طالبان نے بچوں کے ساتھ عید منائی اور کھانا کھایا۔ افغان شہری محمد عامر کا کہنا تھا اس کے چھوٹے بھائی نے اسے بتایا کہ طالبان بغیر کسی خوف و خطرے کے شہر میں داخل ہوئے، ’’میں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکتا کہ طالبان اور سکیورٹی فورسز آپس میں پیار سے ملے اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سلفیاں بھی بنائیں۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی کے مطابق حکومت اور طالبان کی طرف سے الگ الگ کیے جانے والے فائر بندی کے اعلانات ملک میں پائیدار قیام امن کی کوششوں کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوں گے۔ انہوں نے طالبان کو ایک مرتبہ پھر یہ دعوت دی کہ وہ امن مذاکرات کا حصہ بن جائیں۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک غیر ملکی فورسز افغان سرزمین سے نکل نہیں جاتیں، تب تک کابل حکومت کے ساتھ کوئی امن مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments