Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہم مرنے کا انتظار کر رہے ہیں، مشرق غوطہ پر ظلم وستم نہ تھما

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیوٹرز کی جانب سے باغیوں کے علاقوں کو ’زمین پر جہنم‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ شام میں مشرقی غوطہ میں جاری لڑائی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی غوطہ کو انتظار نہیں کرنا چاہیے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کونسل کو شام میں 30 روز کے سیز فائر کے لیے پیش کردہ قرار داد کو منظور کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں کویت اور سوڈان کی جانب سے پیش کردہ قرار داد میں لوگوں کو طبی امداد اور انسانی حقوق کی امداد دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

خیال رہے کہ مشرقی غوطہ گزشتہ کئی عرصے سے روس فضائیہ کی حمایت یافتہ شامی حکومتی فورسز کے نشانے پر ہے اور یہاں شدید بمباری کی جارہی ہے۔
شامی فوج کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ان پر عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ’ یہ ایک انسانی تنازع ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس خطرناک طریقے کو جاری رہنے دینا چاہیے‘۔ انہوں نے کہا کہ اس لڑائی کے ختم ہونے سے ہزاروں لوگوں کو انخلاء کی اجازت ملے گی جو فوری امداد چاہتے ہیں ساتھ ہی اس خطے میں انسانی حقوق کی امداد بھی پہنچائی جا سکے گی۔

دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ شام میں وحشیانہ حکومت سے شہریوں کو بچانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم بی بی سی کا کہنا تھا کہ روس اس قرار داد کو پاس کرنے کی اجازت نہیں دے گا، روس کا کہنا تھا کہ وہ سیکیورٹی کونسل کا فوری اجلاس چاہتا ہے تاکہ اس معاملے پر بات چیت کی جا سکے جبکہ مغربی سفارتکاروں کے خیال میں یہ ایک سازش ہے تاکہ شامی فوج کو وقت مل سکے اور وہ اپنا مقصد جاری رکھ سکیں۔ اس حوالے سے شامی حکومت کی حمایت کرنے والے روس کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اس کے علاوہ شامی حکومت کے ایک اور اتحادی ایران کا کہنا تھا کہ وہ مشرقی غوطہ میں کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس سلسلے میں شام، روس اور ترکی سے رابطے میں ہے۔ اس بارے میں ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عرقچی نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کا ماننا ہے کہ اس تنازع کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی حل ہے۔

مشرقی غوطہ کی بدترین صورتحال
شام میں جاری تنازع کے بعد مشرقی غوطہ میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور روسی حمایت یافتہ شامی فورسز کی جانب سے باغیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس خطے میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر بسام کا کہنا تھا کہ مشرقی غوطہ میں صورتحال تباہ کن ہے اور لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے یہاں موجود لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ دکانوں، مارکیٹوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد یہاں تک کہ ہر چیز کو نشانہ بناتے ہیں اور ہر منٹ میں 10 یا 20 فضائی حملے کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میں نے ایک شخص کا علاج کیا اور ایک یا دو دن بعد وہ دوبارہ زخمی ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں بین الاقوامی برادری کہاں ہے، کہاں ہے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل؟ ان سب نے ہمیں یہاں مرنے کو چھوڑ دیا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں تقریباً 346 شہری ہلاک اور 878 زخمی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر فضائی حملے سے متاثر ہوئے جبکہ یہ اعداد و شمار برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ دریں اثناء غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شامی حکومت کی جانب سے جاری بمباری پر مشرقی غوطہ کے رہائشیوں کا کہنا تھا وہ لوگ ’مرنے کا انتظار‘ کر رہے ہیں۔ اگر مشرقی غوطہ کے حالات کے بارے میں تصور کیا جائے تو دمشق کے قریب باغیوں کے علاقوں میں شامی حکومت کی جانب سے بدترین اور وحشیانہ بمباری کی جا رہی ہے۔

گزشتہ روز ہونے والے حملے میں تقریباً 38 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اتوار سے جاری بمباری کے دوران ہلاک ہونے والے شامیوں کی تعداد 310 سے تجاوز کر چکی ہے اور 1550 سے زائد زخمی ہوئے۔ 8 ویں سال میں داخل ہونے والی شامی خانہ جنگی میں یہ حملے بدترین حملوں کے طور پر تصور کیے جا رہے ہیں اور اس شدید بمباری کے دوران راکٹ، شیلنگ، فضائی حملے اور ہیلی کاپٹر سے فضائی بمباری بھی کی جا رہی ہے۔ مشرقی غوطہ میں جاری اس شدید بمباری پر وہاں کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم صرف ایک چیز کہہ سکتے ہیں کہ ’ہم مرنے کا انتظار کررہے ہیں‘۔

ریڈ کراس کا مطالبہ
شام میں جاری اس جنگ کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی برادری (آئی سی آر سی) نے مطالبہ کیا کہ انہیں غوطہ میں انسانی حقوق کی خدمات فراہم کرنے کی اجازت دی جائے، خاص طور پر حملوں میں زخمی ہونے والوں کو علاج معالجے کی فوری ضرورت ہے۔ شام میں آئی سی آر سی کی سربراہ میریان گیسر کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید لوگ اس لڑائی سے متاثر ہوں گے اور یہ ایک پاگل پن ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔ طبی امداد فراہم کرنے والی ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 روز میں 13 ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جس میں کچھ ہسپتال مکمل تباہ ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس طرح کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ بمباری کے بعد شام میں ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں نے عفرین شہر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے، جہاں انہیں امریکی اور شامی حکومت کی حمایت یافتہ وائی پی جی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 

Post a Comment

0 Comments