Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکی ناروا سلوک کے ذمہ دار ہم خود ہیں ؟

امریکہ 2003ء میں عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ کر کے اِس پر قابض ہونا چاہتا تھا اور عراق میں داخل ہونے کیلئے امریکہ کو آسان ترین راستہ پڑوسی ملک ترکی سے دستیاب تھا، امریکہ نے ترکی کو پیشکش کی کہ اگر ترکی امریکی افواج کو اپنی زمینی اور فضائی حدود فراہم کر دے تو اِس کے عوض ترکی کو 20 ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی مگر ترک پارلیمنٹ نے ’’پرکشش امریکی پیشکش‘‘ کو متفقہ طور پر ٹھکراتے ہوئے اپنی زمینی اور فضائی حدود امریکہ کو فراہم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد امریکہ، کویت کے راستے عراق میں داخل ہو کر قابض ہوا۔

عراق پر امریکی قبضے کے بعد ایک غیر ملکی صحافی نے ترک وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’’امریکہ تو بالآخر عراق پر قابض ہو گیا مگر ترکی نے 20 ارب ڈالر کی امریکی پیشکش ٹھکرا کر بہت بڑی غلطی کی۔‘‘ ترک وزیراعظم نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’ہم نے امریکی پیشکش کو اِس لئے ٹھکرایا کہ کل عراق کی آئندہ نسلیں ہماری طرف اشارہ کر کے یہ نہ کہیں کہ قابض امریکی افواج ترکی کے راستے اُن کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔‘‘ 9/11 کے بعد افغانستان پر حملے اور قبضے کیلئے امریکہ کو پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے کی ضرورت پڑی، اُس وقت پاکستان، افغانستان کا اتحادی تھا اور ملک میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے۔ اِسی دوران امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے 7 مطالبات پر مشتمل ایک فہرست پیش کی اور بعد ازاں ایک امریکی ٹیلیفون کال پر جنرل پرویز مشرف نے کابینہ کے اراکین سے صلاح و مشورہ کئے بغیر امریکی خوشنودی کیلئے وہ تمام مطالبات تسلیم کر لئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

جنرل مشرف نے کسی تحریری دستاویز کے بغیر بلوچستان اور سندھ کے 3 فضائی اڈے امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی جہاں سے امریکی بی 52 بمبار طیارے اڑ کر افغانستان کے مسلمانوں پر بمباری کرتے رہے جبکہ امریکی ڈرون طیارے ہمارے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اسی طرح میرانشاہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں امریکی افواج کو بیسز قائم کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی جہاں امریکی خفیہ ادارے کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا اور یوں پاکستان امریکی سی آئی اے کا سب سے بڑا اسٹیشن بن گیا۔ امریکہ کیلئے یہ خدمات انجام دیتے وقت جنرل پرویز مشرف نے اپنے قریبی فوجی ساتھیوں کو اعتماد میں لینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مشرف دور کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کے بقول وہ اور اُن کے دوسرے سینئر جنرلز اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان، امریکہ افغان جنگ میں مکمل غیر جانبدار رہے گا.

ایک موقع پر جیکب آباد ایئر فیلڈ کو جب امریکہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی تو جنرل پرویز مشرف نے ہمیں یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ ’’میں امریکہ کو کمٹمنٹ دے چکا ہوں، امریکہ بھارت کو افغانستان سے دور رکھے گا۔‘‘ اسی طرح سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آصف نواز کے بھائی اور دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز نے یہ انکشاف کر کے تمام پاکستانیوں کو مزید حیرت زدہ کر دیا کہ جنرل پرویز مشرف نے امریکی زمینی افواج کو بلوچستان کے ساحل پر اترنے کی اجازت دی جہاں سے امریکی افواج قندھار میں داخل ہو کر افغانستان پر قابض ہوئیں جبکہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جنرل مشرف نے اسلام آباد میں متعین افغان سفیر عبدالسلام ضعیف کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا اور پاکستان میں پکڑے جانے والے القاعدہ کے600 سے زائد مشتبہ افراد کو کسی عدالتی حکم کے بغیر سی آئی اے کے طیاروں میں بٹھا کر نامعلوم مقام یا گوانتانا موبے پہنچا دیا گیا۔

شجاع نواز کے بقول جنرل مشرف نے یہ سب کچھ امریکی خوشنودی کیلئے کیا تا کہ اقتدار کو طول دیا جا سکے۔ انہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ کل امریکہ افغانستان پر قابض ہو کر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دے گا اور وہاں بھارت کا اثر و رسوخ قائم ہو جائے گا۔ بعد میں ایسا ہی ہوا، امریکہ نے بھارت نواز حامد کرزئی کو افغانستان میں لانچ کیا جس نے افغانستان میں بھارت کو لا بٹھایا اور بھارت نے براہمداغ بگٹی کے ٹریننگ کیمپس کھلوا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کی۔ پاکستان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود آج امریکہ نے پاکستان کے تمام احسانات کا بدلہ یہ دھمکی دے کر اتار دیا ہے کہ ’’امریکہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے مگر اب امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہے گا۔‘‘

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی کردار کو سراہتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے اور اتحادی ممالک کا درجہ واپس لینے کا عندیہ بھی دیا ہے جبکہ مزید 4 ہزار امریکی افواج افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی اور پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان کے بعد خطے میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ افغان پالیسی کے جو خدوخال بیان کئے گئے ہیں، اُن سے خطرات کی بو آرہی ہے۔ امریکہ، افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد افغان جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلانے کی مذموم منصوبہ بندی کر رہا ہے تا کہ پاکستان میں افغانستان کی طرح خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر کے اِسے اندرونی طور پر غیر مستحکم کیا جائے اور خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ قائم ہو سکے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو بڑی حکمت اور جرات سے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا اور امریکہ پر یہ واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان امریکہ سے اب مزید کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گا۔

آج امریکہ پاکستان کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہا ہے اور افغانستان بھارت کی زبان بول رہا ہے، اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ہم امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے اور اپنی غیرت اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ آج امریکہ پاکستان کو کمزور اور بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ ہم امریکہ میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی کو اس لئے غدار قرار دیتے ہیں کہ اس نے امریکیوں کے ساتھ مل کر امریکی سی آئی اے سینکڑوں اہلکاروں کو ویزے جاری کئے جس کے نتیجے میں اسامہ کے خلاف آپریشن کامیاب ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ کیا پرویز مشرف کی امریکہ کیلئے دی گئی خدمات حقانی سے مختلف نہیں جو غداری کے زمرے میں آتی ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت زیادہ شدید نقصانات ہوئے۔

میرے نزدیک مشرف بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا حقانی جس نے پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے نقصان پہنچایا۔ افغانستان میں تعینات ایک پاکستانی سفارتکار نے مجھے بتایا کہ افغانیوں کی آنکھوں میں جو نفرت پاکستان کیلئے انہوں نے دیکھی ہے، وہ کسی دشمن ملک میں نظر نہیں آئی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ نئی افغان نسل پاکستان کی طرف اشارہ کر کے یہ کہتی ہوں کہ قابض امریکی افواج پاکستان کے راستے ان کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔ کاش کہ ہماری قیادت نے ترکی کے دانشمندانہ فیصلے سے سبق سیکھا ہوتا۔ ہم اتنے سستے کیوں بک گئے؟ ایک ڈکٹیٹر نے اپنے مفادات کیلئے امریکہ کے ساتھ گھاٹے کا سودا کیوں کیا؟ آج جو سلوک امریکہ ہمارے ساتھ روا رکھ رہا ہے، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

مرزا اشتیاق بیگ
 

Post a Comment

0 Comments