Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

افغانستان ، جنگ کے بدلتے ہوئے انداز : جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ

افغانستان کی جنگ آزادی میں تین دہائیوں کے قلیل عرصے میں جنگ کے طریقوں میں دو مرتبہ اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔1987ء میں افغان مجاہدین نے‘ سٹنگر میزائیلوں’ کے ذریعے روسیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور اب خود کش بمباروں کے ذریعے امریکیوں کو افغانستان سے متعلق منصوبے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

سٹنگرز میزائیل: 1986ءمیں روسیوں نے افغانستان میں ہیلی بورن کمانڈو بریگیڈ شامل کیا جس سے مجاہدین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت امریکی سنٹرل کمانڈ کے جنرل کرسٹ (General Crist) نے پشاور میں میرے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔ وہ مجاہدین کی پسپائی اختیار کرنے پر حیران تھے۔

اس کے ایک ہفتہ کے اندر امریکی فوج کے کمانڈر جنرل وکم (Wikam General ) نے مجاہدین کے پسپا ہونے کی تصدیق کرنے کیلئے پشاور کا دورہ کیا۔ انہوں نے حالات کا زمینی جائزہ لیا اور مجاہدین کو ہاتھ سے چلنے والے سٹنگر میزائیلوں کی ضرورت کے معاملے پر مطمئن ہو کر واپس چلے گئے اورجلد ہی مجاہدین کو سٹنگر میزائیل دے دیئے گئے جنہیں مجاہدین نے استعمال کیا اور روسی ہیلی کاپٹروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کے سبب جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور روسیوں کو پسپا ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ ہر لحاظ سے مناسب اور بر وقت فیصلہ تھا۔

خودکش بمبار: یہ کوئی نئی ایجاد نہیں ہے۔ طالبان کمانڈر ہیبت اللہ کے بیٹے عبدالرحمن خالد کی قیادت میں خود کش بمباروں کے دستے نے بارود بھری امریکی (Humvy) پر بیٹھ کر خود کش حملہ کر کے مدافعت کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ اس کارروائی نے نوجوان حریت پسندوں کو نیا ولولہ عطا کیا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کریں گے۔ ذرا سوچئے کہ اگر خود کش بمباروں سے بھری ہوئی نصف درجن ایسی گاڑیاں کسی ٹھکانے پر حملہ کر دیں تو دفاعی فوجوں کی ہمت اور حوصلے کو توڑ کر رکھ دیں گی اور جب وہ بھاگیں گے تو ان کے پیچھے درجنوں خودکش بمبار ان کا تعاقب کر رہے ہوں گے اور اس طرح ایک کے بعد دوسرے حصار ٹوٹتے جائیں گے۔ اب ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی سازوں نے ان خطرات کو بھانپ لیا ہے اور افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

دراصل امریکہ اور اس کے اتحادی 2010ءمیں مکمل طور پر شکست کھا چکے تھے لیکن ان میں روسیوں کی طرح شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ امریکہ نے اپنا نمائندہ رچرڈ آرمیٹیج جو کہ افغانستان کے سینٹ کی کمیٹی کے سربراہ تھے’ انہیں میری طرف بھیجا تا کہ افغان مجاہدین کے ساتھ بات چیت کی راہ نکالی جائے۔ (رچرڈ آرمیٹیج وہی شخص ہیں جنہوں نے 9/11 کے بعد جنرل مشرف کوسخت دھمکیاں دیں اور انہیں افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کیلئے امریکہ کے سات مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا)۔ ہم نے ملا عمر سے رابطہ کیا اور ان کی جانب سے اشارہ مل چکا تھا اور انہوں نے امریکیوں سے بات چیت کیلئے ایک پانچ رکنی وفد بھی تیار کر لیا تھا لیکن اسی دوران واشنگٹن میں کچھ ایسی سازش بنی کہ پینٹاگون نے رچرڈ آرمیٹیج کو روک دیا ’جنہوں نے کرنل امام اور خالد خواجہ کے اغوا اور قتل کے بعد ہمارے ساتھ رابطے ختم کر دیئے۔ 2010ء سے امریکہ اور اس کے اتحادی ”سامنے نظر آتی ہوئی شکست کو فتح میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں“ لیکن ملا عمر کے پرعزم مطالبے کی وجہ سے اس سلسلے میں انہیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی۔

ملا عمر نے کہا تھا کہ: ”افغانستان سے نکل جاو اور ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دو۔“ ایسا بہر صورت ہونا ہی تھا جیسا کہ میں نے بھری محفل میں جنرل مشرف کی جانب سے افغانستان کے خلاف امریکی جنگ میں شامل ہونے کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ”طالبان پھر سے منظم ہو کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے ملک کی مکمل آزادی تک جنگ لڑیں گے’ وہ جیتیں گے اور امریکہ اوراتحادی ہار جائیں گے۔“ میری اس بات پر سب حاضرین طنزاً ہنس پڑے تھے مگر آج وہ خود اپنے آپ پر ہنس رہے ہوں گے۔ لہٰذا اب امریکہ کے ممتاز تجزیہ کار اور پالیسی ساز حلقوں کی جانب سے ”افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی تبدیل کرنے“ کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔

•افسوسناک بات یہ ہے کہ 16 سالوں تک خزانے لٹانے اور اتنا بیش بہا خون بہانے کے باوجود محفوظ اور پرامن افغانستان کے خواب کی تکمیل کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

•”ہم افغانستان میں اس وقت تک ہرگزکامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہمیں پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل نہ ہو۔“ (جنرل ڈیون فورڈ’ امریکی جوائنت چیف آف سٹاف۔)

• ”وائیٹ ہاوس کواب اس امر کا ادراک کرلینا چاہیئے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوج سالانہ 23 بلین ڈالر سے زائد اخراجات کر رہی ہے لیکن اس کے مقابلے میں امریکی مفادات کا تحفظ بہت کم ہے۔ ایک ناکام جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کو بڑھانا کسی طور سودمند فعل نہیں ہے۔ امریکی فوج ماضی کی کارروائی ہی دہرا رہی ہے لیکن توقع مختلف نتائج کی ہے۔“

•”امریکی پالیسی سازحلقوں نے بالآخر افغانستان کے بارے منصوبے تبدیل کرنے کی ضرورت کا ادراک کر لیا ہے جو پچیس سالوں سے ایک ہی پالیسی پر گامزن ہیں اور توقعات مختلف نتائج کی رکھتے ہیں۔“ یہ عقلمندی کی علامت ہرگز نہیں ہے کہ آپ بار بار ایک ہی جیسی کاروائیاں کرتے رہیں اور توقع مختلف نتائج کی رکھیں۔“

•”اگر امریکہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر قبضہ کر کے انہیں آزاد کرانا چاہتا ہے تو قبل اس کے کہ دہشت گردوں کا صفایا ہو ’اسے اپنی فوجوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے“ اور افغانستان کی سرزمین افغانیوں کےلئے تنگ نہ ہو گی۔

• ”پاکستان کیلئے تزویراتی گہرائی کا مطالبہ طالبان کے‘ غیر ملکی فوجوں کے انخلاء اور افغان (پاکستان) پختونوں کوغیر ملکی دباو سے آزاد باعزت زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہے’ برحق ہے۔ اگرچہ یہ بہت ہی مشکل فیصلہ ہے لیکن بدترین اقدامات کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہو گا۔“

امریکہ کو اب ہمارے تزویراتی گہرائی کے نظریے کی حقیقت کا ادراک ہوا ہے کیونکہ افغانستان میں تحریک آزادی اب عروج پر ہے اور اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں پاکستان، ایران اور افغانستان 1988ء کی طرح باہمی اتحاد سے خطے میں مسلم ممالک کا تزویراتی محور بنا سکتے ہیں اور تمام زاویوں سے تزویراتی سلامتی کے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ 25 اگست 1988ء کو نیا چیف آف آرمی سٹاف بننے پر میں نے اپنے سینئر افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ”ہم اسلام کے غلبے اور جمہوری اقدار کی ترویج کا سورج طلوع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان تینوں ممالک باہم متحد ہو کر آزاد، مستحکم اور پرعزم انداز سے مشترکہ منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ تینوں ممالک باہمی اتحاد سے طاقت کے ایک مرکز کا روپ دھار سکتے ہیں۔ یہی اتحاد عالم اسلام کی تزویراتی گہرائی کا نظریہ ہے۔“

یہ ایسا نظریہ ہے جسے بہرصورت حقیقت کا روپ دھارنا لازم ہے۔ ”اس نظریے کے خلاف ہمارے دشمنوں سے زیادہ ہمارے اپنے آستین کے سانپوں نے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہے وہ خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے تاکہ ”افغانستان سے غیر ملکی فوجو ں کے انخلاء کا ہمارا مطالبہ پورا ہو سکے اور ہم غیروں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے آزاد باعز ت زندگی گزار سکیں۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیئے کہ ہماری حکومت اس اہم مسئلہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا اولین ہدف سمجھتے ہوئے، شرمندہ تعبیر کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کرے گی۔ اس خواب کی تعبیر ملکی دفاع کی سب سے اہم حقیقت ہو گی۔

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
 

Post a Comment

0 Comments