Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یورپ کا ایردوان کے خلاف اتحاد

ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات روز بروز سرد مہری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یورپ اور ترکی کا ایک دوسرے کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ترکی اگرچہ یورپی یونین کا مستقل رکن نہیں ہے لیکن یورپی یونین اسے اپنی مستقل رکنیت عطا کرنے کے لئے ہمیشہ ہی مختلف شرائط عائد کرتی رہی ہے اور ترکی کی جانب سے ان شرائط کو پورا کرنے کے باوجود یورپی یونین نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے ترکی کو ٹالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ترکی اس وقت 2.9 فیصد شرح ترقی سے یورپی ممالک اورOECD کے ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور ملک میں صدارتی نظام قائم ہونے اورمضبوط سیاسی استحکام کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک اس کوشش میں ہیں کہ وہ ترکی کو کیسے روکیں۔

یورپی یونین کےترکی سے متعلق منفی روئیے کے بارے میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اپنی انقرہ میں صدارتی مہم کے دوران شدید مذمت کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت صرف صلیبی اتحاد کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں دی جا رہی ‘‘ ترکی نیٹو میں متحدہ امریکہ کے بعد اپنی فوجی قوت کے لحاظ سے دوسرے بڑے اتحادی ملک کی حیثیت رکھتا ہے لیکن نیٹو کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں کیونکہ ترکی اس وقت روس کے زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔ ترکی اور روس کے تعلقات اگرچہ ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد خراب ہو گئے تھے لیکن یہ تعلقات اس وقت نیا رخ اختیار کر گئے جب روس نے ترکی کی 15 جولائی کی ناکام بغاوت سے قبل ہی ترکی کواس بغاوت کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا جس پر دہشت گرد تنظیم فیتو نے مقررہ وقت سے چند گھنٹے قبل بغاوت برپا کر دی۔ 

میں اپنے کالموں میں اس بغاوت سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کر چکا ہوں لیکن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بغاوت کے ایسے گوشے پر سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں جو آج تک پاکستانی قارئین کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں روس کو اپنی خفیہ سروس کے ذریعے ترکی میں بغاوت کی اطلاع پہلے ہی سے مل چکی تھی جس پر روس کے صدر پیوٹن نے فوری طور پر اپنے ایک مشیر الیکسنڈر دوگین کو انقرہ روانہ کیا اور مغربی ممالک کو اس کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ۔ روسی مشیر دوگین نے بغاوت میں شامل اہم ناموں کی فہرست حکومتِ ترکی کو پیش کی ۔ بغاوت کے روز صدر ایردوان کے طیارے کو ترکی کے ایف سولہ طیاروں نے نشانہ بنانا تھا لیکن حکومتِ روس کی اس بغاوت کی خبر کے حکومتِ ترکی سے شیئر کرنے کے بعد روس کے سات طیاروں اور ایس 400 میزائلوں نے صدر ایردوان کے طیارے کو نشانہ بنانے کے لئے تیار ایف سولہ طیاروں کے پائلٹوں کو وارننگ جاری کرتے ہوئے روکا۔ 

متحدہ امریکہ میں تیار ہونے والی بغاوت کے اس پلان کے مطابق ایک امریکی نشریاتی ادارے کی ٹیم امان پور کی قیادت میں ایک روز قبل ہی کوریج کے لئے انقرہ اور استنبول پہنچ چکی تھی۔ علاوہ ازیں ترکی میں امریکہ کے فوجی ہوائی اڈے انجرلیک سے پرواز کرنے والے 45 ہیلی کاپٹر باغیوں کے آپریشن میں شمولیت اختیار کر چکے تھے جس پر ترک پولیس کے ڈھائی ہزار اہلکاروں نے فوری طور پر انجیرلیک کے ہوائی اڈے کا محاصرہ کرتے ہوئے بجلی منقطع کر دی اور امریکہ کو واضح طور پر پیغام دے دیا گیا کہ’’ ہوائی اڈے کے تحفظ کی خاطر حکومتِ ترکی نےاسے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے ‘‘حکومت ِ ترکی کے اس پیغام کے بعد اوباما انتظامیہ نے فوری طور پر کئی ملکی فوجی آپریشن ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ 

امریکہ اور یورپ کو پختہ یقین تھا کہ ایردوان کسی بھی صورت دہشت گرد تنظیم فیتو کی برپا کردہ بغاوت سے جانبر نہیں ہو سکیں گے اور اس طرح ترکی جو کہ گزشتہ چودہ سال سے مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن اور دنیا کی عظیم قوت بننے کی دہلیز پر آن پہنچا ہے اور ایردوان کے 2023ء کے اہداف جس میں ترکی کو دنیا کی دسویں بڑی طاقت بنانا مقصود ہے کو لگام دی جا سکے گی۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس بغاوت کے ذریعے ترکی میں آق پارٹی کو اقتدار سے ہٹا کر ملک میں پہلے کی طرح کوالیشن حکومتوں کا دور واپس لانے کے خواہاں تھے تا کہ ترکی کا سیاسی استحکام ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے لیکن ان ممالک کو اس بات کی ہر گز توقع نہ تھی کہ ترک عوام ، صدر ایردوان کے ایک پیغام پر سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر اور اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ملک میں ڈیموکریسی مضبوط بنانے کا ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیں گے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 

یورپ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ صدر ایردوان کوئی ڈکٹیٹر نہیں بلکہ انہیں باون فیصد عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ صدر ایردوان کو ملک میں 16 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی کا پختہ یقین ہے اور کامیابی کی صورت میں یورپ کو سبق دینے کی توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ کسی بھی یورپی رہنما کو انہیں ’’آمر‘‘کہنے کی جرات نہ ہو ۔ جرمنی، ہالینڈ آسٹریا، سوئٹزر لینڈ ، ناروے اور ڈنمارک میں صدر ایردوان کے حق میں مہم کی ریلیوں کی اجازت نہ دئیے جانے کی وجہ سے ترکی اور ان یورپی ممالک کے مابین جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ صدر ایردوان نے یورپی ممالک کے اس روئیے پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان تمام ممالک پر نازی ازم اور فاشزم کے الزامات عائد کئے ہیں۔ ان یورپی ممالک میں بڑی تعداد میں ترک باشندے آباد ہیں جن کی واضح اکثریت صدر ایردوان کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ان ممالک میں ترکی کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں ووٹنگ بھی کرائی جائے گی جس سے صدر ایردوان بھر پور طریقے سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں یورپی یونین میں آباد یہ ترک باشندے ملک کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 

ترکی میں ان دنوں بھر پور طریقے سے ریفرنڈم کی مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس صدارتی مہم کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے یورپ کو واضح پیغام دیا ہے کہ یورپ نے ان کے حق میں مہم کو روک کر اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔ ترک صدر ایردوان نےاپنی صدارتی مہم کے دوران اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ16اپریل کے ریفرنڈم کے بعد ترکی یورپی یونین کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔ علاوہ ازیں ترکی اور یورپی یونین کے مابین عراقی اور شامی پناہ گزینوں کے بارے میں طے پانے والے سمجھوتے کے بارے میں بھی صدر ایردوان واضح طور پر یورپی یونین کو خبر دار کر چکے ہیں اگر یورپی یونین کے ممالک نے ان پناہ گزینوں سے متعلق عائد ہونے والے فرائض ادا نہ کئے تو پھر حکومتِ ترکی اس سمجھوتے پر نظر ثانی کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔ 

ڈاکٹر فر قان حمید

Post a Comment

0 Comments