Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بوسنیا : ایک آوارہ گرد کی نظر سے

اگلی دوپہر کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں اور ہم بوسنیا کی شاید سب سے پرانی اور قدیم مسجد غازی خسرو بیگ مسجد میں بیٹھے ہیں۔ گرمی کی شدت کافی ہے اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے مسجد اپنی بناوٹ کے اعتبار سے ہو بہو استنبول کی نیلی مسجد سے ملتی ہے۔ یہاں تک کہ گنبد اور فرش بھی تقریبا ایک سا ہے مسجد کے احاطے میں آتے ہی دو بڑے بڑے ہال ہیں۔ دائیں جانب کا حال مردوں کے لیے اور بائیں جانب کا عورتوں کے لیے ہے اور مسجد کے بیرون دروازوں اور ہالز کے درمیان ایک فوارہ چشمہ ہے جس کے اوپر لکڑی کی چھت ہے جس پر بڑی عمدہ کشیدہ کاری کا کام ہوا ہے۔ شاید یہ چشمہ کئی صدیوں سے وضو کے کام آ رہا ہے آج بھی پانی رواں دواں ہے اور کچھ مرد حضرات اس کے گرد وضو کرتے پانی پیتے نظر آتے ہیں۔

یہ خوبصورت اور دلکش مسجد سولہویں صدی کے وسط 1537ء میں سلطنت عثمانیہ کے (اس وقت کے بوسنیا میں سلطنت عثمانیہ کے سلطان کی طرف سے تعینات) گورنر غازی خسرو بیگ کے حکم پر تعمیر ہوئی جس نے اسی مسجد کے آس پاس ساٹھ  دکانوں کا حکم بھی دیا۔ شاید اس وقت سے آج تک یہ علاقہ اس شہر کی لائف لائن اور سماجی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ غازی خسرو بیگ ہی وہ گورنر تھا جس نے سراہیو کو اس کی شان بخشی اور اپنے اس سلطنت عثمانیہ کے سرحدی شہر پر بھرپور توجہ دی اور اس کو تعمیری اور کاروباری اعتبار سے ایک اہم شہر تبدیل کیا۔ اگر اس شہر کے محل وقوع پر ایک نظر ڈالی جائے تو غازی خسرو بیگ کی دفاعی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔

یہ خوبصورت شہر پہاڑوں کے بیچوں بیچ بسا ہے یعنی پہاڑ دفاع کی پہلی ڈیفنس لائن اور پھر آگے پورے کا پورا رچا بسا شہر جس کو فتح کئے بغیر دشمن فوجوں کے لئے آگے بڑھنا بہت ہی مشکل ہے غازی خسرو بیگ علم کی طاقت سمجھتا تھا اسی لیے غازی نے بوسنیا کے سلطنت کے زیراثر آتے ہی یہاں مسجد کے عین سامنے ایک عظیم الشان مدرسہ کی تعمیر کا حکم دیا جو آج بھی غازی خسرو بیگ مدرسہ کے نام سے جوں کا توں کھڑا ہے۔ 

 سفرنامہ مسجد غازی خسرو بیگ 

Post a Comment

0 Comments