Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جماعت اسلامی، تاریخ کا جبر اور خواجہ آصف

”قیام پاکستان سے آج تک جماعت اسلامی تاریخ کی غلط سمت کھڑی ہے ،تحریک  اورتخلیق پاکستان کے وقت، اس کی مخالفت کی“۔ وزیر دفاع اور شعلہ بیان مقررخواجہ آصف موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں تاریخی حوالوں سے جماعت اسلامی پر برس رہے تھے اور ایوان میں ڈیسک بجا کر انہیں داد دی جا رہی تھی۔ جماعت اسلامی اور پاکستان کی مخالفت کا مقدمہ کب کا داخل دفتر ہوچکا لیکن جس کسی کو، جب کبھی جماعت اسلامی کی قیادت پر طیش آتا ہے اس بوسیدہ الزام کا ہتھیار لے کر میدان میں نکل آتا ہے۔ سید ابواعلی مودودی اپنی زندگی میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں جو نوائے وقت کے انہی صفحات پرشائع ہوئی تھی لیکن اس کے بعد قرار داد مقاصد سے لے کر سکندر مرزا اور ایوب خان کے مارشل لاء تک جماعت اسلامی نے ہر جمہوری اورقومی تحریک کی قیادت کی جس میں خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر سید ابو اعلی مودودی کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔

1953کی تحریک ختم نبوت میں تاجدار اہلسنت مولانا عبدالستار خان نیازی اورمولانا مودودی پھانسی گھاٹ تک پہنچ گئے تھے لیکن ان دونوں بزرگوں کے قدم نہ لڑکھڑائے اور وہ شان ختم نبوت کیلئے پھانسی کے پھندے چومنے کو تیار تھے اس وقت خواجہ صفدر تاریخ کی غلط سمت کھڑے تحریک ختم نبوت کے جانثار تھے۔ مارشل لاءکے نفاذ کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر جنرل ایوب خان سے پنجہ آزمائی کرنا ہماری مختصر سی سیاسی تاریخ کا یاد گار واقعہ ہے جس میں ایوب مخالف مسلم لیگی دھڑوں کی قیادت آپ کے والد کونسل لیگی خواجہ صفدر کر رہے تھے جبکہ سیدابوالاعلیٰ مودودی نتائج سے بے پروا ہو کر پاکستان کی جمہوری قوتوں کی رہنمائی کر رہے تھے ۔ اس وقت بھی آپکے والد جنرل ایوب خان کے مقابلے میں جماعت اسلامی اور دیگر جمہوری قوتوں کے شانہ بہ شانہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے تھے۔
یہ بھی تاریخ کا جبر تھا بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت تشکیل پانے والی اسمبلی میں صرف 5 ارکان پر مبنی حزب اختلاف کے قائد آپکے عظیم المرتبت والد خواجہ محمد صفدر تھے جنہیں اس وقت جماعت اسلامی کی سیاسی اوراخلاقی بھر پور مدد حاصل تھی۔ بعد از خرابی بسیار جنرل ایوب خان کو جانا پڑا تو نئے سیاسی کھیل کاآغاز ہوا 70 کے انتخابات میں جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا اس میں بڑے بڑے برج الٹ گئے جن میں آپکے والد خواجہ صفدر بھی شامل تھے جنہیں صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں آپکے آبائی محلے میں دھوبیوں کے ایک نوجوان لڑکے اکبر منہاس نے بھاری ووٹوں سے شکست دی۔ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے امیدوار برائے قومی اسمبلی بریگیڈئر نثار قریشی کے مقابل کونسل لیگ کا نو وارد مالدار امیدوار کوٹلی لوہاراں سے آنے والا عبدالمنان خود ضمانت ضبط کروا بیٹھا اور بریگیڈئیر صاحب اور جماعت اسلامی کی سیاست کو بھی غرق کر گیا۔

البتہ مرحوم مشرقی پاکستان میں جماعت واقعی تاریخ کی غلط سمت کھڑی تھی عوامی امنگوں کے برعکس البدر اور الشمس کے بنگالی نوجوانوں نے متحدہ پاکستان کیلئے اپنی جانیں نچھاور کر دیں ان میں سے کچھ 40 سال بعد اسی جرم وفا میں پھانسیاں پا گئے اور چند وفا شعار شہادت کی راہ پر گامزن ہیں۔ بھٹو کا عہد خواجہ صاحب نے گوشہ نشینی میں گذارا تھا ۔ 5جولائی 1977 تک آپکے والد محترم تاریخ کی غلط سمت جماعت اسلامی کے ساتھ آزاد جمہوری کیمپ میں سر بلند و سرخرو کھڑے رہے لیکن ضیاءالحق نے اپنی تر زبانی سے تاریخ  کا دھارا بدل کررکھ دیا اس روباہ صفت جرنیل نے خواجہ صفدر کواپنا برادر بزرگ قرار دیکر متحدہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے ہیرو اور تخلیق پاکستان کے بعد جمہوریت کےلئے ہونیوالی معرکہ آرائیوں کے قافلہ سالار آپ کے والد خواجہ محمد صفدر کوغیر منتخب مجلس شوریٰ کا سربراہ بننے پر آمادہ کر لیا۔

آپکے والد کی حلیف جماعت اسلامی نے بھی تقیہ کرتے ہوئے اپنے چند ارکان ذاتی حیثیتوں میں اس مجلس شوری میں بھجوا دیئے تھے پھر ضیا کابینہ میں شمولیت اور 1985 کے غیر جماعتی انتخاب میں آپکے والد خواجہ محمد صفدر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ جماعت اسلامی کے ارکان بھی بڑی تعداد میں اسمبلیوں تک پہنچے ، اس وقت بھی جماعت اسلامی اور آپکے والد گرامی تاریخ کی غلط سمت شیر وشکر رہے اورپھر وہ المناک سانحہ ہوا جس میں آپکے بڑے بھائی خواجہ اسد' جو ابھرتے ہوئے بینکار تھے ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ خواجہ اسد مرحوم اپنے دوستوں کے ہمراہ رات کو گوجرانوالہ سے واپس آ رہے تھے کہ جواں سال ظاہرے شاہ گاڑی پر قابو نہ رکھ سکے ۔ متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونیوالے ظاہرے شاہ کبھی کبھار اب بھی اپنے دوست خواجہ اسد کی ناگہانی موت کو یاد کر کے دھاڑیں مار کر روتے ہیں اسکے بعد خواجہ آصف صاحب آپ منظر عام پر آئے اورخواجہ اسد مرحوم کی جگہ بینکار بن گئے ۔ خواجہ صفدر نے عابدی سے کہہ سن کر آپ کو دبئی بھجوا دیا اور وہاں سے آپ نے براہ راست سینٹ آف پاکستان میں لینڈ کیا تھا۔ خواجہ صفدر 85 کاغیرجماعتی انتخاب جیتنے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نہ بن سکے اورفخرامام ، جیسے مرنجان مرنج سیاستدان سے سپیکر کا انتخاب ہار گئے۔

بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد 88 اور 90 کے انتخابات میں آپکے والد نے حصہ لینے سے صاف انکار کر دیا کہ 70 میں دھوبیوں کے لڑکے سے شکست کا غم، ناسور بن کر تحریک آزادی کے مجاہد خواجہ صفدر کو ڈستا رہا تھا۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ 90 میں خواجہ صاحب کی فرمائش پر نواز شریف نے پہلی بار آپ کو سینیٹر بنوایا اورپھر آپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا 93 کے عام انتخابات میں سینیٹر ہوتے ہوئے حصہ لیا اور کامیاب و کامران رہے۔ ستم گر مشرف کا مارشل لاء آپکو راس آیا۔ 2002 کے دورجبر میں مسلم لیگ (ن) کے چند جیتنے والو ں میں آپ نمایاں تھے۔ آپ قومی اسمبلی کے میدان میں اپنی خطابت کے جوہر دکھائے، جرنیلوں کوللکارا اورجناب نواز شریف کے مقربین میں شامل ہوگئے۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ شرف صرف آپکو حاصل ہوا کہ ببانگ دہل اپنے والد مرحوم خواجہ صفدر کے غیرجمہوری رویوں اور فوجی مجلس شوریٰ کا سربراہ بننے پر قوم سے مانگی اوراب آپ جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست کوچیلنج کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ پنجاب میں جماعت اسلامی کی قیادت ” ترلے منت“ کر کے مراعات لے رہی ہے لیکن یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات امیر العظیم بادل نخواستہ منصورہ میں موجودہ ایک معافی نامے کا فسانہ لے کر میدان میں نکلے ہیں جو جدہ والے معافی نامے سے پہلے جمع کرایا گیا تھا۔ ویسے پنجاب میں جماعتی قیادت کے ساتھ ’اچھا‘ حسن سلوک ہو رہا ہے کہ ہمارے پیارے خواجہ سعد رفیق سب معاملے نمٹاتے ہیں یا پھر کبھی کبھار میاں شہباز شریف وقت عطا فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جناب نواز شریف کی نواسی کی شادی میں جو خالصتاً ایک گھریلو اورنجی تقریب تھی خاندان کے باہر سے بلوائے جانیوالے مہمانوں میں بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ جماعت اسلامی کے ایک مرکزی رہنما بھی شامل تھے جس کا کہیں ذکر اذکار تک نہیں ہوا۔

کہتے ہیں کہ ساری گرما گرمی کے باوجود آمدہ انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اورجماعت اسلامی مل کر حصہ لیں گی لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست اورپنجاب اسمبلی کی 5 نشستوں کا سودا ہو چکا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں جماعت اسلامی کے فکری رہنما مولانا فضل الرحمن کو عمران خان اور بے لگام پی ٹی آئی پر ترجیح دینگے جس کیلئے فکر مودودی کے حقیقی وارث شاہد ہاشمی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ۔ ظاہر ہے خیبر پختون خواہ میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک ہزارہ جات میں ہے جس سے جماعت اسلامی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ رہا مرکز تو وہاں کب جماعت اسلامی نے آپ کا گریبان پکڑا ہے؟ فرینڈلی اپوزیشن کا کھیل جاری ہے۔ عمران خان کے مشہور زمانہ دھرنے میں جماعت نے حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ آپ خود مزے لے لے کر بتا رہے تھے کہ سراج الحق مجھ سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ فوج آپ کے ساتھ ہے ؟ اورمیں نے کہا ”ست ِخیراں نے فوج دی فکر نہ کرو“ جناب خواجہ صاحب، جماعت اسلامی اور اسکی سیاست تو آپ کو خاندانی ورثے میں ملی ہے۔ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ تاریخ کی غلط یا درست سمت، ہر جگہ اورہر موقع پر خواجہ صفدر مرحوم نے جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ آئین، قانون اور عوامی حقوق کے دفاع کی جنگ لڑی تھی۔ راستے تو تر زبان ضیاءالحق کے دور میں جدا ہوئے!

حضور جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں، وضع داری اور آنکھوں کی حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ایسی بے مروتی کیا کہ جوش خطابت میں سب کچھ بھلا کر گڑھے مردے اکھاڑیں جائیں۔

احتیاط الحذر احتیاط کہ آنے والے دنوں میں سارے پانسے پلٹ سکتے ہیں۔
معافی ناموں کا نیا موسم بھی آ سکتا ہے۔ آپ نے یہ خوب کہا کہ
”کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں

اسلم خان  
 

Post a Comment

0 Comments