Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

طیبہ تشدد کیس ایک بار پھر فائلوں میں دبانے کی کوشش

کیا کہوں؟ کیوں نہ اس ملک کو بددعائیں دوں؟ کیوں نہ اللہ سے عذاب مانگوں؟ اور
کتنے زلزلے، سیلاب اور دہشت گردی چاہیے اس قوم کو جگانے کے لیے؟ اور کتنا ظلم چاہیے بےضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے؟ 

طیبہ تشدد کیس ایک بار پھر معافی تلافی کے بعد فائلوں میں دبانے کی کوشش اور یہ ناہنجار قوم اسے اتنی اہمیت بھی نہیں دیتی جتنی ایک کرکٹ میچ کو. آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی طیبہ کے لیے دوبارہ آواز اٹھائیں.
معصوم طیبہ سے زیادتی کی گئی، اس پر بھیانک تشدد کیا گیا، اس کی دائیں آنکھ سوجی ہوئی تھی، دونوں ہاتھ جلتے توے پر رکھ دئیے گئے تھے، اس کی کمر پر گرم لوہے کی سلاخیں لگائی گئی تھیں یہاں تک کہ اس کی کھال ادھڑ گئی، اسے اندھیرے سٹور روم میں بند کر دیا گیا، شدید سردی میں کپڑے نہیں دئیے گئے.
پولیس نے رپورٹ میں صرف اتنا لکھا کہ کمر پر جلنے کے نشان. آزاد عدلیہ، جو کہ مادر پدر آزاد ہے، ملزم کو انیس سال بعد باعزت بری کرتی ہے تو وہ دو سال پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے، وہ عدلیہ جو دو بھائیوں کو پھانسی لگنے کے ایک سال بعد باعزت بری کرتی ہے، اسی عدلیہ نے بچی کے فرضی والدین کا بے سر و پا معافی نامہ نہ صرف قبول کیا بلکہ ملزمہ کو باعزت بری کرتے ہوئے مقدمہ دو پیشیوں میں ہی نمٹا دیا.عدلیہ نے بچی کے والدین کے شناختی کارڈ نہیں دیکھے، بچی کا فارم ب نہیں دیکھا، تصدیق شدہ کاغذات نہیں مانگے، کسی گزٹّڈ آفیسر کسی نوٹری پبلک کی مُہر نہیں مانگی، بچی کو فرضی والدین کے حوالے کیا اور ملزمان جج فیملی کو فوری انصاف گھر کی دہلیز پر فراہم کر دیا. آپ طیبہ پر تشدد کرنے والوں کو بھی پکڑیں لیکن جنہوں نے اس مقدمے کو لپیٹا انہیں کون پکڑے گا؟ یہ سب کچھ ہو گا نہیں اور آپ دیکھیں گے کہ وہ مقدمہ جو دو پیشیوں میں ختم ہو گیا تھا دو سال تک چلے گا، دوبارہ معافی نامہ ہو گا اور ہم اگلی طیبہ کا انتظار کریں گے.

میں کیوں پاکستانیوں کو برا بھلا کہتا ہوں؟ میں کیوں چاہتا ہوں کہ پاکستان پر امریکہ، برطانیہ یا کوئی اور ملک قبضہ کر لے، یا پھر یہ ملک روس یا چین کو ٹھیکے پر دے دیا جائے؟ کیونکہ میں تنگ آ جاتا ہوں معاشرے کی یہ حالت دیکھ کر، وہ پاکستانی جو جاہل ہیں اور جاہل رہنا چاہتے ہیں، جو غلام ہیں اور غلام رہنا چاہتے ہیں، جنہیں انسانیت کی یہ تذلیل نہیں نظر آتی، ایسا پاکستان اور ایسے پاکستانی ہمیشہ میری تنقید کا محور و مرکز ہیں. یہ لوگ بم دھماکے اور لاشیں دیکھ دیکھ کر پتھر دل ہو چکے ہیں، شام، یمن اور برما کی ویڈیوز موبائل میں ڈال کر گھومتے ہیں اور سب کو شئیر کرتے ہیں.

واللہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا، میں ایک ویڈیو نہیں دیکھ سکتا
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

میں ان مولویوں کے خلاف ہوں جنہیں عافیہ صدیقی نظر آتی ہے لیکن دس سالہ معصوم طیبہ نظر نہیں آتی کہ طیبہ دیوبندی بریلوی اہلحدیث نہیں، میں ان لبرل موم بتی والوں کے بھی خلاف ہوں جنہیں سلمان حیدر نظر آتا ہے لیکن طیبہ نظر نہیں آتی، میں ان پاکستانیوں کے بھی خلاف ہوں جنہیں قرات کی گستاخی تو نظر آتی ہے لیکن انسانیت کی گستاخی نظر نہیں آتی. آپ کسی چوک میں کھڑے ہو کر نعرہ لگائیں پاکستان کا مطلب کیا. جواب دینے والے پچاس ہمنوا آپ کے ساتھ ہوں گے، لیکن اگر آپ قانون، انصاف اور حقوق کی بات کریں گے تو وہی پچاس آپ کو مارنے دوڑیں گے.

یہ تو وہ مرد مومن ہیں جو محض افواہوں اور الزاموں کی بنیاد پر ہی ایک معقول شخص کو کافر مشرک گمراہ اور گستاخ ثابت کر دیتے ہیں. آپ نے سڑکوں پر پاگل مجنون دیکھے ہوں گے جو بلاوجہ منہ سے جھاگ نکالتے گالیاں بکتے دوڑے جاتے ہیں. مجھے بھی اسی قبیل سے سمجھیں، میں بھی تنگ آ کر لکھتا ہوں اور اس جنوں میں پری بھی چڑیل نظر آتی ہے. ایسے میں پاکستانی معاشرہ دیکھنے کی تاب کس میں ہے. دل چاہتا ہے کہ بارہ چودہ سال پیچھے چلا جاؤں، درباروں پر دھمال ڈالوں، عقل فہم شعور کو آگ لگا دوں کہ مرشد کہتے ہیں عقل نہ ہوؤے تے موجاں ای موجاں.

قمر نقیب خان

Post a Comment

0 Comments